بلوچستان ہائی کورٹ نے گرینڈ الائنس کو دھرنا ختم اور حکومت کو احتجاج ملازمین سے بامقصدمذاکرات کے احکامات جاری کردئیے
کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کو دھرنا ختم اور حکومت کو احتجاج ملازمین سے بامقصدمذاکرات کرنے اور ملازمین کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی نہ کرنے کے احکامات جاری کردئیے عدالت کا حکومت کو غیر ترقیاتی مد میں کٹ لگانے اور ریونیوجنریشن کرنے کے بھی حکم، جمعہ کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل دورکنی پنچ نے وکلاء رہنماؤں منیر احمد کاکڑ، نصیب اللہ ترین، سید منظور شاہ، اقبال احمد کاسی، راحب بلیدی، سلیم لاشاری ایڈوکیٹ کی جانب سے کوئٹہ میں جاری بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے دھرنے سے متعلق دائر آئینی درخواست پر سماعت کی،سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل ارباب طاہر کاسی، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ،کمشنر کوئٹہ، بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے کنونیئر عبدالمالک کاکڑ سمیت دیگر عدالت میں ہوئے۔دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملازمین کے ساتھ مذاکرات کے لئے 30مارچ کو وزراء اور دیگر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کی قیادت میں سیکرتری خزانہ، سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی، سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری قانون پر مشتمل سب کمیٹی بھی ملازمین سے مذاکرات کر رہی ہے۔اس موقع پر ملازمین گرینڈ الائنس کے نمائندوں نے کہا کہ کمیٹی نے 18نکات منظور کر لئے تھے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ملازمین کے مطالبات منظور نہیں ہوئے تاہم انکی منظوری کے امکانات موجود ہیں اس عمل کے لئے کمیٹی اور گرینڈ الائنس کے درمیان اجلاس کرنے کی ضرورت ہے جسے ریکاڑد پر لایا جائیگا۔عدالت نے عوام کو درپیش مسائل کے پیش نظر گرینڈ الائنس کو ہڑتال ختم کرنے کا کہا جسے گرینڈ الائنس نے تسلیم کرلیا اور عدالت سے استدعا کی کہ سیکرٹریز کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو ہی بلایا جائے جس پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ نے یقین دہانی کروائی کہ چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ سے اس مسئلے پر اجلاس رکھے گئے ہیں جن کے بعد کمیٹی گرینڈ الائنس کے رہنماؤں کے ساتھ اجلاس کریگی اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری تعلیم نے یقین دہانی کروائی کہ بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے قانون اور صوبے کے مالی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ حکومت مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات اور فنڈز کی موجودگی کو یقینی بنائے گی اس عمل کے لئے حکومت نا ن ڈوپلمنٹ فنڈز کر کٹ لگا سکتی ہے ساتھ ہی ریونیو جنریشن کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جائے عدالت نے احکامات دئیے گئے ایڈوکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر معاملے پر پیش رفت سے متعلق رپورٹ جمع کروائیں اور آئندہ سماعت تک گرینڈ الائنس کے کسی بھی رکن کے خلاف کاروائی نہ کی جائے،عدالت نے پنشنر ایسوسی ایشن کے مطالبات کو حل کرنے کے لئے کمیٹی کو علیحدہ سے جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 12اپریل تک ملتوی کردی گئی۔قبل ازیں کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ جو اساتذہ میٹرک کے امتحان کا بائیکاٹ ختم نہ کریں ان کو فارغ کیا جائے اگر میٹرک کے ایک بچے کا پرچہ ضائع ہوا تو اساتذہ جیل جائیں گے حکومت نے ایک ہی گریڈ کے سرکاری ملازمین میں فرق کرکے آئین کی خلاف ورزی کی اگر کوئی مسئلے مسائل ہوں تو قانون ہاتھ میں لینا نہیں چائیے عوام پر مصیبت پڑی ہوئی ہے پرسوں چیف جسٹس بلوچستان اور شریعت کورٹ کے ججوں کا راستہ روکا گیا راستے فوری کھولے جائیں چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری فنانس بتائیں سب کو یکساں تنخواہوں مل رہی ہیں سیکرٹریٹ کے ملازمین کے ساتھ کیوں فرق رکھا گیا عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ کس کس کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے سیکٹریٹ میں نئی گاڑیوں کی بھرمار ہے اور سرکاری کہتی ہے کہ رقم نہیں افسوس کا مقام ہے کہ یونیورسٹی کو بھی حکومت ادھار دے رہی ہے انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی نے چار نئی گاڑیاں کیوں خریدیں یونیورسٹی کے ملازمین کو گذشتہ تین ماہ سے تنخواہوں نہیں ملیں اگر یونیورسٹی فیس بڑھائے تو شور مچ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کتنے اساتذہ ہیں جو دبئی میں بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں،چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک موقع پر اقبال کاسی ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ عدالت پر شک کررہے ہیں آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے عدالت خاموش بیٹھے یہ کیسے ممکن ہے حق لینے کا طریقہ عدالت ہے ہڑتال نہیں آج حکومت اور ملازمین تسلیم کرلیں کی غلطی دونوں جانب سے ہے۔سیکرٹری خزانہ بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان کا بجٹ خسارے کا ہے اس بجٹ میں ملازمین میں تفریق ختم کرنے کی طرف جارہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اڑھائی کروڑ کی اسکیم پچاس کروڑ تک کیسے چلی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ کیا وزرا اور سیکرٹریز کے پاس اضافی گاڑیاں نہیں ہیں،بلوچستان آنے والے افسران کو اضافی الاؤنس کیوں دیا جاتا ہے بلوچستان ہاوس میں کتنی گاڑیاں ہیں اور اسکا خرچہ کتناہے حکومت غیرضروری جائیدادوں کو فروخت کرکے مسائل کو کم کرسکتی ہے آج طے کیا جائے کہ غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملازمین سرکار کے بچے ہیں تنخواہیں یکساں ہونی چائیے بات یہاں تک نہیں پہنچنی چائیے تھی مسئلہ حل ہونا چائیے تھا،ہم کسی کے خلاف نہیں ہم مسئلے کا حل چاہتے ہیں مظاہرین اور حکومتی کمیٹی مل بیٹھ کرمعاملات حل کریں سرکار ملازمین کی تنخواہ 4 گنا بڑھا دے ہمیں اعتراض نہیں تنخواہ میں اضافے کے بعد سرکاری ملازمین رزلٹ بھی دیں گے انہوں نے کہا کہ پیسے کہاں سے لانا ہے حکومت کا کام ہے حکومت انکم جنریٹ کریں آج اور کل بیٹھ جائیں سوموار سماعت کے دوران رزلٹ دیں،انہوں نے کہا کہ اگر ملازمین کو عدالت پر بھروسہ ہے تو دھرنا ختم کر دیں، اگر نہیں کیا تو ہم سمجھیں گے کہ بھروسہ نہیں انہوں نے کہا کہ سول ہسپتال کا راستہ روکا ہوا ہے، اللہ کے حضور بھی گناہ ہوگا اور قتل کا مقدمہ بھی درج ہوگا،آج دھرنا ختم ہوگا یہ عدالت کا حکم ہے،اگر دھرنا ختم نہیں ہوتا تو ہماپنا حکم منوانا جانتے ہیں، جسٹس کامران ملاخیل نے کہا کہ ملازمین اور سرکار ملی ہوئی ہے اور عوام کو ذلیل کررہے ہیں ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈی ای او فی میل کی گاڑی پر قابض ہے ریاست میں جرات نہیں کہ گاڑی واپس لے،انہوں نے کہا کہ اگر اساتذہ ہڑتال ختم نہیں کرتے تو سیکرٹری تعلیم ان کو فارغ کریں