بلوچستان میں نہ حکومت ہے اور نہ ہی حکومتی پالیساں نظر آ رہی ہے،حاجی زابد ریکی
خضدار:جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما و رکن صوبائی اسمبلی حاجی زابد علی ریکی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نہ حکومت ہے اور نہ ہی حکومتی پالیساں نظر آ رہی ہے،اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین کی حلقوں میں بے جا مداخلت ہو رہی ہے،صوبے کے وسائل کو غیر منتخب لوگوں کے زریعے ضائع کیا جا رہا ہے،ڈیزل و پیٹرول کی بندش کی وجہ سے باڈر ایریا کے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں،سی پیک کی ترقی پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کے لئے ہیں بلوچستان کے لوگ اس ترقی سے محروم ہیں،ملازمین کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے انہیں انتقامی کاروائیوں کا شکار بنانا قابل مذمت عمل ہے ملازمین خود کو تنہا نہ سمجھیں نہ صرف قوم بلکہ پوری اپوزیشن ان کے ساتھ ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں بحیثیت مہمان اظہار خیال کرتے ہوئے کیا اس موقع پر جمعیت علما اسلام کے صوبائی نائب صدر مولانا محمد صدیق مینگل اور ضلعی جنرل سیکرٹری مولانا عنایت اللہ رودینی سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے جمعیت علما اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی حاجی زابدعلی ریکی نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں منتخب حکومت نہیں بلکہ سلیکٹیڈ حکومت ہے انہیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ترقی کے دعوے صرف سوشل میڈیا میں نظر آتی ہے یا پھر فائلوں میں بند ہیں زمین پر کوئی ترقی نظر نہیں آ رہی ہے صوبائی حکومت انتقامی کاروائیوں میں اتنے آگے نکل چکی ہے کہ وہ نہ صرف اپوزیشن کے حلقوں میں بے جا مداخلت کر رہی ہے بلکہ ساتھ ہی صوبے کے عوامی فنڈز کو غیر منتخب لوگوں کے زریعے ضائع کر رہی ہے جس سے عوام کا نقصان اور غیر منتخب لوگوں کا فائدہ ہو رہا ہے ایک سوال کے جواب میں رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ سی پیک اور سی پیک کے زریعے بلوچستان میں اربوں روپے کے منصوبے کاغذی باتیں ہیں سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ نام بلوچستان کا استعمال ہو رہا ہے سی پیک کے وسائل پنجاب،کے پی کے اور سندھ پر خرچ ہو رہے ہیں،بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد بے روزگار نوجوانوں کے روزگار کا انحصار ایرانی پیٹرول و ڈیزل پر ہے ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کی کاروبار پر پابندی لگانے سے ہزاروں نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں اگر حکومت ڈیزل اور پیٹرول کے کاروبار پر پابندی لگانی ہے تو پہلے ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں وگرنہ ان کو بے روزگار کرنا سنگین غلطی ہو گی جس سے نہ صرف حکومت ریاست بلکہ لوگوں کو بھی پریشانی و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایک سوال کے جواب میں رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی ہڑتال جائز ہے حکومت کو چائیے کہ وہ فورا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافہ کے ساتھ ان کے دیگر مسائل کو تسلیم کر کے نوٹیفکیشن جاری کریں ملازمین کے مطالبات تسلیم کر کے انہیں حل کرنے کے بجائے انہیں انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانا افسوسناک عمل ہے میں ملازمین کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ صرف بلوچستان کا عوام بلکہ پوری آپوزیشن کی حمایت انہیں حاصل ہے وہ اپنا حق حاصل کئے بغیر گھروں کو نہ جائیں۔