بلوچستان میں ایک سال کے دوران 84افراد غیرت کے نام پر قتل
کوئٹہ: بلوچستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں 84افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جن میں 66خواتین بھی شامل ہیں، سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کے بغیر جمہوری ادھوری ہے، تمام سماجی و اریاستی اداروں میں خواتین کی مناسب شمولیت ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے، بلوچستان حکومت نے 3اہم محکمے خواتین کے حوالے کئے ہیں جو حکومت کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے سنجیدگی ظاہر کرتی ہے، قانون سازی میں خواتین کی برابر شمولیت وقت کا تقاضا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی، رکن صوبائی اسمبلی و اسٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل گورنمنٹ کے چیئرمین قادر نائل، سابقہ سینیٹر اور عورت فاؤنڈیشن کی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ممبر روشن خورشید بروچہ، نیشنل کمیشن فار سٹیٹس آف وومن کی ممبر ریحانہ خلجی،عورت فاؤنڈیشن کے علاؤ الدین خلجی،جذبہ پروگرام کی ضلعی کوآرڈنیٹر یاسمین مغل، اشفاق مینگل و دیگر نے عورت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کوئٹہ میں وومن لیڈرشپ اسمبلی کے عنوان سے منعقدہ ایک روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا کہ خواتین کا عالمی دن ہر سال منایا جاتا ہے مگر خواتین کی خودمختاری کی اصطلاح کو غلط سمجھا گیا ہے اور جب بھی عورت کی خودمختاری کی بات کی جائے تو لوگوں کے ذہنوں میں آزاد مدر پدر کا خیال ذہن میں آتا ہے جو کہ صحیح نہیں بلکہ خواتین کی خودمختاری کا مطلب خواتین کو اپنے فیصلوں میں آزاد ہونا چاہیے انہیں حصول تعلیم کے مواقع میسر آنی چاہیے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق جوانہیں اسلام نے دی ہے ملنے چاہیے جس کے لئے خواتین کا جدوجہد جاری رہے اور آنے والے وقتوں میں انشاء اللہ انہیں بنیادی حقوق حاصل ہوں گی۔ انہوں نے کہاکہ خواتین نے ہمیشہ سے مشکلات کا سامنا ہے، غیرت کے نام قتل کا معاملہ اب بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس سلسلے میں سنجیدگی سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاہم نصیر آباد، جعفرآباد اور متعلقہ علاقوں میں شعور بیدار کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس سے اس طرح کے واقعات میں کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت خواتین کے حقوق بابت سنجیدہ ہے اور اس کا اندازہ 3اہم محکموں کو خواتین کے حوالے کرنے سے لگایا جاسکتاہے۔ انہوں نے کہاکہ بہت سے قوانین پر عمل درآمد کے لئے خواتین پارلیمنٹیرینز کلیدی کردار ادا کررہی ہیں تاہم اس کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے سیاسی عمل میں شمولیت کے لئے ان کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اس کے لئے فی میل ایجوکیشن کو عام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرکے اس نافذ کیا جائے تو مسائل پر کافی حد تک قابو پاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین پارلیمنٹیرینز چاہے وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں ہے مل کر بخوبی کام کررہی ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی قادر نائل نے کہا کہ بدقسمتی سے ایس جی ڈیز میں صنفی مساوات ہماری پہلے ترجیح نہیں ہے جو ایک المیہ ہے۔ خواتین کے بغیر جمہوریت مکمل نہیں ہوسکتی، تمام سماجی و ریاستی اداروں میں خواتین کی مناسب شمولیت ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔ انہوں نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ کاکام اراکین اسمبلی کو کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ یہ کام میونسپل کمیٹی کی سطح پر ہونے چاہیے بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ میں اصلاحات کی جانب کسی نے توجہ نہیں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں کوٹہ سسٹم ختم ہونا چاہیے ایک مزہب نظام میں اس کی کئی پر مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ووٹ تو لیتی ہیں ایسی جماعتیں موجود ہیں جو اسمبلی میں 10 سے 12 نشستیں جیت لیتی ہیں مگر ان کی خواتین ونگ سرے سے ہی نہیں ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو خواتین ونگز بنانے چاہیے۔اس موقع پر دیگر مقررین نے کہا کہسیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کے بغیر جمہوریت ادھوری ہے۔ خواتین کے 5 فیصد جنرل سیٹوں پر الیکشن پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام شناختی کارڈ ہولڈرز اپنا نام ووٹر لسٹ میں رجسٹرڈ کرے کیونکہ جب تک تمام افراد بشمول خواتین کے ووٹ کاسٹ نہیں کرتے اس وقت تک جمہوریت کی مضبوطی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے قلعہ عبداللہ میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات کو بھی شناختی کارڈ کا اجرا نہیں کیا گیا ہے یہی حالت لسبیلہ اور نصیر آباد کی ہے حتی کہ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں بھی شہری شناختی کارڈ سے محروم ہیں اس لئے نادرا کو پابند بنانا ہوگا کہ وہ ارجنٹ بنیادوں پر لوگوں کو شناختی کارڈ کا اجرا یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ شناختی کا اجرا نہ ہونا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ خواتین کو سیاسی عمل شامل کرکے ہی جمہوریت کو فروغ دیا جاسکتا ہے مگر یہاں پر بدقسمتی سے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کے نہ ہونے سے لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کے لئے الیکشن کمیشن کا کردار ناقابل فراموش ہے تاہم اس سلسلے میں شعور بیدار کرنے کے لئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد کے 118کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 84مرد و خواتین بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ہوئے جن میں سے 66خواتین ہیں۔