سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان ذاتی حیثیت میں طلب

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ارکان کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کی پولنگ اسکیم بھی طلب کرلی۔سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عام تاثرہے کہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن ہوتی ہے۔۔ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔۔ انتخابی عمل سے کرپشن روکنے کی اسکیم نہیں بنائی گئی۔ صرف شیڈول دینا کافی نہیں۔ پولنگ اسکیم بنانا ہوگی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کرپشن کی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں۔۔ بتایا جائے شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیئے کہ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلزکا اوپن بیلٹ کی مخالفت کرنا تشویشناک ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ بارکونسلز سیاسی جماعتوں کاساتھ دے رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بارکونسلزنے اپنی درخواستوں میں آئین کے مطابق فیصلے کا لکھا ہے۔ بار کونسلز کا موقف آزادانہ ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی جماعتوں والا۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ واضح کرنا ہوگا بار کونسلز کا کام کہاں ختم ہوتا ہے اور عدالت کا کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ بارکونسلزکا مقدمہ سننے والے ججز کو قراردادیں بھجوانا پروفیشنل رویہ نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آئین شفافیت یقینی بنانے کا کہتا ہے تو الیکشن کمیشن ہر لحاظ سے بااختیار ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ انتخابات والے رولز کا سینٹ الیکشن پر اطلاق کیوں نہیں ہوتا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ہو مگر شکایت پر جانچ ہونی چاہئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔40 سال میں کتنے سینٹرزووٹوں کی خرید وفروخت پر نااہل ہوئے۔؟ الیکشن کمیشن کے وکیل ان سوالات کا جواب نہ دے سکے۔عدالت نے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن کو طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے