سینیٹ نشست کے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں، اسد عمر
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ سے متعلق آرڈیننس کے دفاع میں کہا ہے ابھی سے سینیٹ کی نشست کے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں اور یہ پہلی مرتبہ نہیں، ماضی میں ممبر اپنا ضمیر بیچتے تھے اور پیسہ اکٹھا کرتے تھےوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی طاقت کسی ٹینک، توپ خانے یا بندوق سے نہیں آتی بلکہ جب عوام سمجھیں کہ نظام ہماری بہتری کے لیے ہے اور ایوان کی اخلاقی قوت ہی جمہوریت کی اصل طاقت ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں موجود لوگوں کو عوام عزت کی نگاہ سے دیکھیں لیکن اب پاکستان ڈیموکریٹکس موومنٹ کے جلسوں میں سینیٹ میں انتخابات سے متعلق متنازع بیایات موجود ہیں انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ کے انتخابات میں شفافیت پر اتفاق کیا لیکن اب جب سینیٹ کے انتخابات میں شفافیت کو حقیقی روپ دینے کا وقت آیا تو کہتے ہیں کہ بہت بڑی سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جرم، سیاست اور جمہوریت جوڑ جاتی ہیں، لوگ غلط پیسہ بنا کر سینیٹ کی نشست خردیتے ہیں اور پھر وہ کمائی کرتے ہیں، کمائی کا ایک ذریعہ سینیٹ کے انتخابات ہیں اسد عمر نے انکشاف کیا کہ ابھی سے سینیٹ کی نشست کے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ ماضی میں ممبر اپنا ضمیر بیچتے تھے اور پیسہ اکٹھا کرتے تھے اور الیکشن میں ووٹ خریدنا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا بہت عرصے سے ہورہا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس گھناؤ کھیل میں حکومت کے پاس بہت سارے طریقے ہوسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت گھبرائی ہوئی ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہےاسد عمر نے واضح کیا کہ تحریک انصاف کے منشور میں ہے کہ جتنا آئینی حق ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے اصلاحات لے کر آئیں گے اور اسی لیے اسمبلی میں بل لے کر گئے اور ساری قوم نے اپوزیشن کا تماشہ دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات شفاف طریقے سے ہونے پر بعض اراکین قومی اسمبلی کی دہاڑیاں ختم ہوجائیں گی وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے متعلق جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہےایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 2014 میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بیٹھ کر انتخابی اصلاحات پر اتفاق کیا گیا لیکن پھر مسلم لیگ (ن) نے وہ معاہدہ سرد خانے کی نظر کردیاانہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کا بل کابینہ میں منظور ہونے کے بعد اسمبلی میں موجود ہے، جب دسمبر میں انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے تھے لیکن انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے این آر او دیں گے تو بات ہوگی۔