سینیٹ سے متعلق آرڈیننس سے سپریم کورٹ متنازع ہوسکتی ہے، بلاول بھٹو
کراچی:پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت پر سینیٹ کے انتخابات متنازع بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے جو آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اس سے سپریم کورٹ بھی متنازع ہوسکتی ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے دوران میچ فکس اور دھاندلی کرنے کے خلاف ہماری کوششیں جاری ہیں تاکہ وہ ایسی کوششیں نہ کرسکے کہ سینیٹ انتخابات بھی ایسے ہی متنازع ہوں جیسے قومی اسمبلی کے انتخابات متنازع ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں ایک پارٹی کے لیے ایک ہی سلیکٹڈ امیدوار کے لیے دھاندلی کروائی گئی اور اب سینیٹ انتخابات میں ریفرنس اور آرڈیننس کے ذریعے یا پھر ترمیمی بل پیش کیا اور اس سے نہ صرف ہمارا پارلیمان متنازع ہو رہا ہے بلکہ سپریم کورٹ بھی متنازع ہوسکتا ہے اور سینیٹ کا پورا الیکشن متنازع ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کے لیے اور ہر جمہوری ملک میں ہر شہری کو ووٹ کا حق ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خفیہ ووٹ کا حق ہے تاکہ وہ مکمل پرائیویسی کے تحت ووٹ ڈال سکے تاکہ کوئی انہیں دباؤ میں نہ لا سکے اور ان کے ووٹ کی وجہ سے کوئی ان سے بدلہ نہ لے سکے اور یہ بنیادی حق ہر الیکشن چاہے بلدیاتی یا عام انتخابات ہوں یا پھر سینیٹ کے انتخابات میں ہے لیکن اس پر اور صوبائی اراکین کے خفیہ ووٹ کے حق پر حملہ کیا جا رہا ہے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں سینیٹ انتخابات میں مکمل انتخابی اصلاحات کی حامی ہیں لیکن یہ حکومت اس میں کوئی دلچپسی نہیں رکھتی، وہ شفاف اور غیر متنازع انتخابات نہیں چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر وہ واقعی شفاف انتخابات چاہتی تھی تو بہت وقت تھا کیونکہ وہ تین سال سے حکومت میں ہیں، انتخابی اصلاحات اور ضروری قانون سازی اور آئین میں ترمیم پر کام کر سکتے تھے لیکن ان کی نیت خراب تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو پہلے اُمید تھی کہ انہیں سینیٹ میں فری ہینڈ دیا جائے اور ان کا مقابلہ نہیں ہوگا لیکن جب پتا چلا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سینیٹ انتخابات میں ان کا مقابلہ کر رہی ہے اور ان کے اراکین اسمبلی ناراض ہیں تو اپنے اراکین پر عدم اعتماد کرتے ہوئے پہلے عدالتی ریفرنس دائر کیا پھر ایک آئینی ترمیم کا بل کمیٹی کے ذریعے بغیر کسی بات چیت اور اپوزیشن کے نکتہ نظر کے بغیر مسلط کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ آئینی ترمیمی بل پیش کر رہے ہیں اور اگر آپ کا وزیر قومی اسمبلی کے فلور پر کہہ رہے ہیں ہمیں اس آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو آپ مان چکے ہیں کہ یہ ایک آئینی ضرورت ہے لیکن پھر ایک آرڈیننس جاری کرتے ہو لیکن آپ آرڈیننس کے ذریعے آئینی ترمیم نہیں کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر کہتے ہیں کہ قانونی تبدیلی کی ضرورت ہے تو یہ کھلم کھلا تضاد اور ان کے مؤقف میں کنفیوژن ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ عدالت اس کی اجازت نہیں دے گی جہاں الیکشن کمیشن نے بھی صاف کہا ہے کہ یہ آئینی انتخابات ہیں، جہاں تاریخ اور عدالت کی مثالیں موجود ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پہلے ہی عدالت میں موجود ہے اور ہم اس آرڈیننس کو بھی عدالت میں چیلنج کریں گے اور آئین اور قانون کے تحت انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ یہ سازش کامیاب ہوئی تو پاکستان کی جمہوریت، پارلیمان اور پاکستان کے انتخابات پر بہت بڑا حملہ ہوگا، اگر یہ سازش کامیاب ہوتی ہے تو آپ صوبائی اور قومی اسمبلی کو بند کرسکتے ہیں، ان کا ووٹ ڈالنے کا فائدہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کی رائے کا حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کریں چاہے وہ قانون سازی ہو، آئین میں ترمیم یا پھر ووٹ ہو، یہ ان کا حق ہے اور وہ اپنے فورم کے ذریعے کام کرے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر صدر کے دفتر سے یا عدالت کے ذریعے قانون سازی ہونی ہے تو پھر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو بند کر دیں کیونکہ جمہوریت اور اس ریاست کو چلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں رہا، اگر یہ مثال قائم ہو جاتی ہے تو ہر انتخابات سے پہلے قومی اسمبلی معطل ہوتی ہے تو پھر صدر آرڈیننس نکالے گا۔
انہوں نے کہا کہ صدر آرڈیننس نکالے گا کہ یہ انتخابات اوپن اور جنرل انتخابات کی ووٹنگ ہوگی اور فیس بک پولنگ کے مطابق اپنے فیس بک پیج پر جا کر ووٹ ڈالیں گے اور ہم بے بس دیکھیں گے کہ ہم نے اسمبلی میں کوئی قانون نہیں بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی خطرناک مثال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کا یہ اقدام غیر ذمہ دارانہ ہے اور اُمید رکھتا ہوں کہ حکومت کے سہولت کاروں کو بھی سمجھ آنا چاہیے کہ اس قسم کی مثال قائم کرکے ہم خطرناک راہ پر چل رہے ہیں اور اس سے غلط پیغام ملک کے اندر اور باہر جائے گا۔
سینیٹ انتخابات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہماری امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں کہ غیرجانب دارانہ، غیر سیاسی، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دیے جائیں گے اور پھر کوئی امکان نہیں ہے کہ یہ آرڈیننس انتخابات تک رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ سینیٹ میں ان کا مقابلہ کریں گے، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی سب کے لیے خفیہ طریقے سے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالنا آسان ہے اور نیب اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادی اور اراکین کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو حکومت کا اپنے اراکین پر اعتماد نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا جعلی تصور ہے کہ اگر ہم اوپن بیلٹ سے انتخابات کروائیں گے تو شاید اپنے سینیٹرز منتخب کرنے کے لیے زیادہ آسانی ہوگی لیکن میں کہوں گا آپ کے اراکین آپ کے خلاف اوپن ووٹ دینے کو تیار ہیں، اوپن ووٹ میں زیادہ مشکل ہوگا اور ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں اور پی ڈی ایم اوپن ووٹ میں بھی ٹف ٹائم دے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ پھر یہ تاثر دیا جاتا ہے اور ایک جماعت اور ایک آدمی کے انا کی تسکین کے لیے پاکستان کے آئین کو پامال کیا جاتا ہے تو پاکستان کی ساری جمہوری قوتوں کو صاف پیغام دیا جائے گا، سارے اداروں کی طرف پیغام دیا جائے گا کہ آپ بات کرتے ہیں کہ نظام کے اندر رہ کر مقابلہ کریں یا نظام کے اندر جمہوریت کی بات کریں یا جمہوریت کے لیے جدوجہد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر نظام کے اندر رہنے کا جواز ہے وہ تھوڑا کمزور پڑ جائے گا اور آپ قومی اسمبلی میں ہم سے بولنے کا حق چیھن لیں گے، قائد حزب اختلاف سے بھی بولنے کا حق چھین لیں گے، ہمیں اہم مسائل پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور پھر ہمیں ووٹ دینے کا حق بھی اس طرح چھینیں گے تو ساری جماعتوں سے سنجیدہ رد عمل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اس آرڈیننس کو حکومت سندھ اور سینیٹر رضاربانی کے ذریعے اپنا مؤقف سپریم کورٹ کے سامنے رکھ رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے حیدرآباد کے جلسے میں دمادم مست قلندر ہوگا، جمہوریت اور اس پر صوبے کی رائے سب کو نظر آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ 26 مارچ کو ہونے والے مہنگائی مارچ کی تیاری ہے اور یہاں کے عوام اپنی جدوجہد کرتے رہیں گے اور پاکستان کے عوام کے ساتھ مل کر ان مسائل سے باہر نکلیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ نیب کی کوششیں جاری ہیں لیکن ہم نیب سے نہیں ڈرے اور ہم ان کے ہر ہتھکنڈے کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں، اگر ان میں ہمت ہے تو گرفتار کریں، اب تک تو ہمت نہیں ہوئی لیکن دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے اور اسی طرح مریم نواز کے حوالے سے بھی پہلے ہمارا مؤقف رہا ہے کہ نیب اپوزیشن کے لیے ایکشن میں آتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہا تو ہماری بھی اپنی کوششیں بھی جاری ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جہاں تک آبپارہ والے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ نہ صرف سینیٹ الیکشن بلکہ ان کا کوئی سیاسی کردار نہ ہو، اگر ان کا کوئی سیاسی ونگ ہے تو اس کو فی الفور بند کیا جائے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست اور انتخابات میں حصہ نہ ڈالے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سینیٹ انتخابات ہوجاتے ہیں اور اس میں واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی جماعت کی حیثیت سے انتخابات لڑتی ہے اور ان کو دوسری طرف سے کوئی مدد نہیں ملی تو پاکستان کی جمہوریت کی جیت ہوگی اور پورے نظام کی جیت ہوگی اور میں اس کا خیر مقدم کروں گا جو ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ ادارے ان انتخابات میں متنازع ہوئے تو نہ صرف اس ادارے کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے متنازع قدم ہوگا اور اس کے غلط نتائج ہوں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہم نے 2018 اور ماضی کے سینیٹ کے الیکشن سے کافی کچھ سیکھ چکے ہیں اور ایسی کوئی غلطی نہیں کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت صرف اور صرف اس لیے آج تک چل رہی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا تعاون ہے اور اسمبلی میں اکثریت نہیں لیکن زبردستی نہ صرف ان کے اتحادی بلکہ ناراض رہنما کبھی نیب اور کبھی دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے جمہوریت کو کمزور کر کے اس کٹھ پتلی کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اُمید تھی کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں اس طرح کی دھاندلی نہیں ہوگی لیکن جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے لیکن ہم سیاست دان ہیں اور ہمیں سیاسی میدان میں لڑنا ہے، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کی سیاست اور ریاست میں مداخلت ہماری تاریخ کا حصہ اور حقیقت ہے۔
چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ہم ہر فورم پر اس حقیقت سے مقابلہ کرتے رہیں گے جب تک ہم کامیاب نہ ہوں اور ہمیں اُمید ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ عوام اپنے فیصلے خود کریں گے اور ادارے بھی متنازع نہیں ہوں گے، اگر ایسا ہوا تو معیشت آگے نہیں بڑھے گی۔