ہمیں ایک قوم بن کر اس ملک کو بچانا ہے،مولانا فضل الرحمٰن
پشاور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد (پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیںاس سے ہمیں گلے شکوے ہیں اور شکایت اپنوں سے ہی ہوتی ہےاسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو توڑنا چھوڑ دے، سندھ اسمبلی ٹوٹنے سے الیکٹرول کالج ختم نہیں ہوتا، سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لیا تو یہ بھی ان نا اہلوں سے بھرجائیگا، ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کا خاتمہ کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب کردیا ہےحکمران بیوقوف تھے اور ایسے ہی احمق رہیں گے، اگر اس ملک کو بچانا ہے تو اس حکومت سے نجات دلانا اہم ہے،ملک میں دوبارہ شفاف انتخابات کرائے جائیں، نیب کا حربہ اب ٹھس ہوچکا ہے۔
اب نیب خطرے میں ہے، کل آنے والی حکومت اسے ختم کردیگی، نیب افسران حدود میں رہیں، ذاتی دشمنیاں نہ پیدا کریں، اٹھارویں ترمیم پر ہاتھ ڈالنا ملک کو تقسیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ان خیالات کا اظہارا نہوں نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ براڈشیٹ نے انکی کارکردگی کا پول کھولا ہے، قوم کے اتنے زیادہ پیسے کا نقصان کس پاداش میں ہوا ہے، یہ ان کی نااہلیوں کی وجہ سے ہے، ملائیشیا میں ہمارا جہاز انکی نااہلیوں کی وجہ سے روکا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک قوم بن کر اس ملک کو بچانا ہے اور اگر یہ موجودہ حکومت رہتی ہے تو ملک کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی لہٰذا اس ملک کو بچانا ہے تو ہم درحقیقت پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان نااہلوں سے اس قوم کو نجات دلانا قومی فریضہ بن چکا ہے اور ہم اس قومی فریضے کو ادا کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اختلافات پر بغلیں نہیں بجانے چاہئیں، یہ تو بار بار ہو چکا ہے، اسکے باوجود پی ڈی ایم متحد بھی ہے، حالات کے مطابق بہترین طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے اور 5 فروری کو مظفرآباد میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرینگے اور بہت بڑا مظاہرہ ہو گا۔
سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ای میں شریک جماعتوں کی بتدریج شرکت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ابتدا میں اس حوالے سے ایک سوچ تھی کہ اگر استعفے آ جاتے ہیں اور سندھ اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے تو پھر انتخابی حلقہ ختم ہو جاتا ہے اور سینیٹ کے الیکشن نہیں ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)اور جمعیت علمائے اسلام(ف)سے وابستہ آئینی ماہرین نے اس پر رائے دی کہ ایک اسمبلی کی تحلیل سے الیکٹورل کالج تحلیل نہیں ہوا کرتا اور الیکشن پھر بھی ہوں گے تو ہمیں فوری طور پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی۔
اس حوالے سے ضمنی الیکشن میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو سینیٹ بھی ان نااہلوں سے بھر جائے گا۔