کریمہ بلوچ کی تدفین کے موقع پر کوئی کرفیو نہیں تھا، جام کمال خان
اسلام آباد:وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ کریمہ بلوچ کی تدفین کے موقع پر کوئی کرفیو نہیں تھا، میت جیسے ہی لائی گئی اسے ان کے آبائی علاقے تمپ میں پہنچایا گیا تھا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کریمہ بلوچ کے جنازے کو سیکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں لینے اور عوام کو شرکت سے روکنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ تدفین میں مقامی افراد نے شرکت کی تھی جبکہ پہلی مرتبہ خواتین نے بھی جنازے میں شرکت کی۔
خیال رہے کہ کینیڈا کے شہر میں مقیم بلوچ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ گزشتہ برس اپنے گھر سے نکلنے کے بعد لاپتا ہوگئی تھیں اور ایک روز بعد مردہ پائی گئیں، کینیڈین پولیس نے ان کی موت کے حوالے سے کسی مجرمانہ فعل کی نفی کردی تھی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ جو پارٹیاں اس معاملے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہی تھیں کریمہ کی ماضی کی بہت سے تقاریر اسی نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے خلاف ہیں، ہم سے زیادہ کریمہ نے ان کے خلاف بات کی تھی۔
کریمہ بلوچ کی موت کے حوالے سے کینیڈین حکومت سے سوال کرنے کے بارے میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے حکومت پاکستان نے اس معاملے کو کینیڈین حکومت کے ساتھ اٹھایا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ کینیڈا میں ہوا جہاں دنیا کے بہترین قوانین نافذ ہیں، وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو دنیا کا بہترین وزیراعظم کہا جاتا ہے تو یہ واقعہ ان کے ملک میں ہوا اور انہیں وضاحت کرنی ہے، کینیڈا کا اپنا نظام ہے وہ اپنے نظام کے تحت کام کرے گا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادیو ہے۔بلوچستان میں صوبائی حکومت ریاستی ادارے کیا کررہے ہیں؟ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر جگہ ایک ملک دوسرے ملک میں مداخلت کرتا ہے، یہ چلتا رہتا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا البتہ ہم چیزوں کو بہتر بنارہے ہیں اور اس سلسلسے میں سرحدوں پر باڑ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہتر، بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں محکمہ انسداد دہشت گردی صرف کوئٹہ میں تھا جسے بڑھا کر 33 اضلاع میں پہنچا دیا گیا ہے، ہم وہ سارے اقدامات کررہے ہیں جس سے بیرونی مداخلت کو کم کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ تقریباً 5 سال سے جلاوطنی اختیار کر کے کینیڈا کے شہر میں مقیم بلوچ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ 21 دسمبر 2020 کو گھر سے نکلنے کے ایک روز بعد مردہ پائی گئی تھیں۔
کریمہ بلوچ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ناقد تھیں اور 2016 سے کینیڈا میں مقیم تھیں جہاں انہیں سیاسی پناہ مل گئی تھی، ان کے ایک قریبی دوست نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو بتایا کہ انہیں کینیڈا میں دھمکیاں مل رہی تھیں۔
تاہم کینیڈین پولیس نے کہا تھا کہ خاتون کی موت کے حوالے سے ’حالات کا جائزہ لیا گیا اور افسران نے یہ تعین کیا کہ یہ ایک غیر مجرمانہ موت ہے اور اس میں کسی سازشی معاملے کا شبہ نہیں‘۔
بعدازاں 2 روز قبل ان کی میت کینیڈا سے پاکستان لا کر ان کے آبائی علاقے تمپ میں لے جا کر تدفین کی گئی تھی۔تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے سینیٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ کریمہ بلوچ کی میت ایئر پورٹ سے اغوا کی گئی اور ان کی والدہ کو دیدار بھی نہیں کرنے دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سب کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ ادا کرنا چاہتے تھے لیکن سیکیورٹی ایجنسیاں ایک میت سے خوفزدہ تھیں، مکران میں نیٹ ورک بند کیے گیے اور اجازت نہیں دی گئی کہ کریمہ بلوچ کی میت کے ساتھ کوئی اس کی قبر تک جا سکے۔
تاہم بلوچستان کی حکمران جماعت بے اے پی کے سینیٹر انوارلحق کاکڑ نے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کریمہ بلوچ کی میت کو پولیس سیکیورٹی میں لے کر قبرستان تک لے جایا گیا کیونکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا تھا۔