ہمارے خاندان میں جنازہ اٹھانے والا کوئی مرد نہیں بچا‘معصومہ یعقوب علی
کوئٹہ :’اگر کسی کو کربلا کا منظر دیکھنا ہے تو وہ میرے خاندان کو دیکھ لے۔ ہمارے خاندان میں جنازہ اٹھانے والا کوئی مرد نہیں بچا۔ جس کے بعد ہم چھ بہنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور اپنے رشتہ داروں کے جنازے خود اٹھائیں گے۔‘
یہ کہنا ہے ہے معصومہ یعقوب علی کا جن کا اکلوتا بھائی محمد صادق اور چار دیگر رشتہ دار سنیچر کی شب صوبہ بلوچستان کے ضلع مچھ میں ہونے والے دس کان کنوں میں شامل ہیں۔سنیچر کی شب مچھ میں واقع کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں کم از کم 10 کان کن ہلاک ہو گئے تھے، ان تمام مزدوروں کا تعلق بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر میتوں سمیت دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے تب تک وہ نا تو میتوں کی تدفین کریں گے اور نا ہی دھرنا ختم کریں گے۔ہلاک ہونے والوں میں پانچ افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے اور وہ قریبی رشتہ دار ہیں۔
ان پانچ افراد کی میتوں سمیت دھرنے میں شامل معصومہ یعقوب علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اکلوتے بھائی سمیت ان کے خاندان کے پانچ افراد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
معصومہ کا بھائی چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی اور دو بچوں کے والد تھے۔ جبکہ ان کے دیگر ہلاک ہونے والے رشتہ داروں میں اٹھارہ سالہ بھانجا احمد شاہ، دو ماموں 20 سالہ شیر محمد اور 30 سالہ محمد انوار اور ان کی خالہ کا بیٹا محمد احسن شامل ہیں۔
معصومہ یعقوب علی: ’میری بڑی بہنیں اکثر اپنے بھائی سے کہتیں کہ ہم نے کافی پڑھ لیا ہے اب ہمین اجازت دو کہ ہم بھی کام کریں، تو وہ کہتا کہ نہیں ابھی تم لوگ اچھے سے پڑھائی کرو تاکہ تم لوگوں کا مستقبل محفوظ ہو
معصومہ تھرڈ ایئر کی طالبہ ہیں۔ ’میں ریاست مدینہ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جس میں دن دہاڑے بے گناہ خاندانوں کے سہاروں کو اس بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد صرف میڈیا پر تعزیتی بیانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔
میں کہتی ہوں کہ اگر یہ واقعی انصاف کی ریاست ہے اگر یہ واقعی مسلمانوں کی ریاست ہے۔۔۔ اگر یہ واقعی ریاست مدینہ ہے تو ہمارے مجرموں کو فی الفور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ انھیں سامنے لایا جائے۔ آخر ہم کب تک اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔
معصومہ نے اپنے بھائی محمد صادق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے والد ضعیف ہیں۔ میرا بھائی ہم چھ بہنوں، بوڑھے والد، اپنی اہلیہ اور اپنی دو بیٹیوں کا واحد کفیل تھا۔ وہ تو محنت مزدوری اور رزق حلال کمانے کے لیے اپنے شہر سے میلوں دور گیا تھا۔
میرے بھائی، میرے رشتہ داروں اور سارے مارے جانے والوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان لوگوں کو تو سرنگوں میں مزدوریاں کرتے ہوئے یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ دن ہے کہ رات۔ کئی مرتبہ اس طرح ہوا ہے کہ بھائی مزدوری کرنے کے بعد فارغ ہو کر فون کرتے تو کہتے کہ مغرب کا وقت ہوا ہے۔ مغرب کی نماز پڑھ لوں، تو اصل میں اس وقت رات کا کافی حصہ بھی گزر چکا ہوتا ہے۔
‘میری بڑی بہنیں اکثر اپنے بھائی سے کہتیں کہ ہم نے کافی پڑھ لیا ہے اب ہمین اجازت دو کہ ہم بھی کام کریں، تو وہ کہتا کہ نہیں ابھی تم لوگ اچھے سے پڑھائی کرو تاکہ تم لوگوں کا مستقبل محفوظ ہو۔ بہنیں اس سے کہتیں کہ تم اس مزدوری سے آخر کتنا کام کر سکتے ہو تو وہ کہتا کہ میرے بازوں میں بہت دم ہے۔ میں اتنا کام کروں گا جتنی ہمیں ضرورت ہے۔
معصومہ یعقوب علی کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی مزدور تھا، کان کن تھا مگر وہ اتنی محنت کرتا تھا کہ ہماری تعلیم سمیت تمام ضرورتیں پوری ہوتیں تھیں، ہمارے بھائی اور والد کا کوئی بینک اکاوئنٹ نہیں ہے مگر ہمارے تمام مسائل حل ہوتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اسی طرح میرے خالہ زاد، ماموں زاد، میرا کم عمر بھانجا یہ سب اپنے خاندانوں کے کئی کئی افراد کے لیے امیدیں اور سہارا تھے۔ ان کے قتل ہونے سے کئی گھروں کے چراغ اور کئی گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔
میتوں کے ساتھ موجود لواحقین میں ایک بزرگ شخص بھی ہیں جو ایک تابوت کے ساتھ بیٹھے مسلسل رو رہے ہیں۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ صحافی جب ان سے ان کے پیاروں کی ہلاکت کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ تھوڑی بہت تفصیلات بتاتے ہوئے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے خدا سے انصاف کی دعا مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔یہی صورتحال دیگر لواحقین کی بھی ہے۔
دھرنے میں شریک ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن حمیدہ فدا نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کر ان کا گلے کاٹے گئے اور سر تن سے جدا کر دیے گئے۔
ان کے مطابق مچھ کو عام طور پر پرامن شہر تصور کیا جاتا ہے جہاں مختلف مذاہب، رنگ اور نسل کے لوگ آباد تھے مگر بدقسمتی سے نفرت کی ایسی ہوا چلی کہ لوگ یہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں آباد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کی برداری اپنے مردے اس وقت تک نہیں دفنائے گی جب تک کہ ریاست مدینہ انھیں انصاف فراہم نہیں کر دیتی۔