گوبر اٹھانے اور دودھ پہنچانے والی سونل شرما جج کے امتحان میں کامیاب
راجستھان :26 سالہ سونل شرما کا تعلق انڈین ریاست راجستھان کے شہر اودے پور سے ہے۔ چوتھی جماعت سے لے کر ابھی تک ان کے دن کا آغاز گائے بھینسوں کا گوبر اٹھانے کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن بہت جلد وہ لوگوں کو انصاف دلانے کے سفر کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔
سونل شرما کا راجستھان کی جوڈیشیل سروسز کے مقابلے کے امتحان میں 2018 میں انتخاب ہوا ہے۔ مقابلے کے امتحان کے نتائج تو گذشتہ برس ہی آ گئے تھے، لیکن وہ ایک نمبر سے چوک گئی تھیں اور ان کا نام ویٹنگ لسٹ میں آ گیا تھا۔
اب اسی ویٹنگ لسٹ سے ان کا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں پہنچ گیا ہے۔ 29 دسمبر 2020 کو ان کی دستاویزات کی تصدیق ہوئی۔
راجستھان کی جوڈیشیل سروسز کے مقابلے کے امتحان میں 2017 میں سونل نے پہلی بار حصہ لیا تھا۔ اس بار وہ محض تین نمبر سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ لیکن انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔
2018 میں انھوں نے دوبارہ کوشش کی۔ اس بار بھی وہ حتمی فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں اور محض ایک نمبر سے باہر ہو گئیں۔ لیکن ان کا نام ویٹنگ لسٹ میں آ گیا۔ اس کا ملال انھیں کئی ماہ تک رہا۔
لیکن کہتے ہیں کہ جب حوصلے بلند اور ارادے نیک ہوں تو منزلوں تک پہنچنا ناممکن نہیں ہوتا۔ کچھ ایسا ہی سونل کے ساتھ بھی ہوا۔
گذشتہ ماہ نومبر 2020 میں یعنی ٹھیک ایک برس بعد انھیں پتا چلا کہ ان کا نام ویٹنگ لسٹ سے حتمی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
سونل نے دستاویزات کی بنیادی تصدیق کروا لی ہے۔ پولیس تصدیق، میڈیکل جانچ اور ایک برس کی تربیت کے بعد وہ بحیثیت جج اپنی خدمات پیش کریں گی۔
انھوں نے بتایا ’ان دنوں میں چوتھی جماعت میں تھی۔ سبھی بچوں کی طرح مجھے بھی اپنے والد کے ساتھ گھومنے جانے کا شوق تھا۔ وہ گھر گھر دودھ پہنچانے جاتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ جایا کرتی تھی۔‘
انھوں نے کہا ’اکثر لوگ پاپا کو کسی نہ کسی بات پر ڈانٹ دیا کرتے تھے، انھیں ذلیل کرتے تھے، لیکن وہ پھر بھی مسکرا کر جواب دیتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ایک روز اپنے والد کے ساتھ دودھ بیچنے کے بعد گھر لوٹ کر انھوں نے اپنی والدہ سے کہا ’میں اب پاپا کے ساتھ نہیں جاوٴں گی کیوں کہ مجھے شرم آتی ہے۔‘
سونل نے بتایا کہ شرم کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سامنے بغیر کسی قصور کے ان کے والد کو لوگوں سے برا بھلا سننا پڑتا تھا۔
لیکن آج ان کی تمام کاوشیں رنگ لائی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کا مشکلوں میں بھی مسکرانے کا جذبہ انھیں بھی حوصلہ دیتا رہا۔
سونل نے سکول اور کالج کی تعلیم اودے پور میں حاصل کی۔ وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران سائیکل پر گھروں تک انھوں نے دودھ بھی پہنچایا اور کالج بھی گئیں۔وہ دسویں اور بارہویں جماعتوں میں ٹاپر رہیں اور بی اے ایل ایل بی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
ایل ایل ایم میں بھی وہ یونیورسٹی ٹاپر رہیں۔عام طور پر والدین کا خواب ہوتا ہے کہ ان کے بچے ان سے بہتر مقام حاصل کریں۔ یہی خواہش سونل کے والد خیالی لال شرما کی بھی ہے۔
ان کے پاس پانچ بچوں کی پرورش کے لیے جانور پالنے کا ہی راستہ تھا۔ اسی کے سہارے انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔
سونل کی کالج کی فیس کے لیے کئی بار ان کے والد کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’پاپا نے دو بار تو میری ہی سہیلی کے والد سے پیسے ادھار لے کر میری کالج فیس بھری۔‘
خیالی شرما نے بتایا کہ وہ 1980 میں سات پیسے کے حساب سے مہارانا پرتاپ ایگریکلچرل یونیورسٹی میں گوبر بیچا کرتے تھے۔ وہاں گوبر کو شمسی توانائی کے سینٹر میں استعمال کیا جاتا تھا۔‘
سونل کی والدہ گوبر کے کنڈے بنا کر ان کا ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔سونل کے والد کہتے ہیں ’جو تکالیف اور پریشانیاں میں نے اٹھائی ہیں، وہ میرے بچوں کو نہ اٹھانی پڑیں۔‘صبح اٹھتے ہی بیشتر لوگ چائے پینا پسند کرتے ہیں۔ اس چائے کے لیے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونل اور ان کے والد لوگوں کے گھر یہ دودھ پہنچانے کے لیے سورج نکلنے سے پہلے ہی گھر سے نکل جایا کرتے تھے۔
سونل نے بتایا ’ہمیشہ کی طرح آج بھی ہمیں صبح چار بجے اٹھنا ہوتا ہے۔ پاپا گائے اوربھینس کا دودھ نکالتے ہیں اور ہم دودھ کو گھروں تک پہنچاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ گوبر اٹھانے، جانوروں کے اردگرد صفائی رکھنے اور انھیں چارا کھلانے جیسے کام گھر والوں نے آپس میں بانٹے ہوئے ہیں۔صبح آٹھ بجے تک ان تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ پڑھائی کرتی ہیں۔
شام ہوتے ہی اپنے والد کے ساتھ وہ دوبارہ جانوروں کو چارہ کھلانے، گوبر اٹھانے اور دودھ نکالنے جیسے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ یہی ان کی روز مرّہ کی زندگی ہے۔
سونل نے بتایا کہ ماضی میں تو یہ ممکن نہیں تھا لیکن اب وہ اپنے والد کی مدد کے لیے چند افراد کو نوکری پر ضرور لانا چاہیں گی۔
جج بننے کی راہ پر آگے بڑھتی بیٹی کے والد خیالی لال شرما ان سے کہتے ہیں ’بیٹی کبھی دباوٴ میں آکر کوئی فیصلہ نا کرنا۔ سب کے ساتھ انصاف کرنا، چاہے سامنے کوئی بھی ہو۔‘