صوبے کے مختلف علاقوں میں خانہ بدوشوں کی جانب سے لینڈ مافیا کی سرپرستی میں اراضی پر قبضہ قابل مذمت ہے،ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، میر کبیر احمد محمد شہی، شیخ جعفر مندوخیل، عبدالرحیم زیاتوال، حاجی لشکری رئیسانی

کوئٹہ :بلوچستان کے سیاسی و قبائلی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں لیکن ترقی کے عمل کے لئے اراضی کے حصول کے لئے مقامی قبائل کو اعتماد میں لیکر قانون کے مطابق سیٹل منٹ کے عمل کو یقینی بنایا جائے صوبے میں تمام اراضی قبائل کی ہے فوری طور پر اراضی کی بندوبست کو یقینی بنایا جائے گوادر میں باڑ لگانے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں خانہ بدوشوں کی جانب سے لینڈ مافیا کی سرپرستی میں اراضی پر قبضہ قابل مذمت ہے اراضی کے حوالے سے سیاسی و قبائلی اتحاد اور بلوچ پشتون سیاسی و قبائلی رہنماؤں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا خوش آئندہے قبائل کی اراضی کے تحفظ کے لئے تمام سیاسی و جمہوری احتجاج کے ذرائع بروئے کار لائیں گے یہ بات مقامی قبائل کمیٹی کوئٹہ بلوچستان کے سربراہ یوسف کاکڑ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، نیشنل پارٹی کے مرکزی سنیئر نائب صدر سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری عبدالرحیم زیارتوال، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنماء شیخ جعفر خان مندوخیل،پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء روزی خان کاکڑ، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صوبائی نائب امیر عصمت اللہ سالم،مقامی قبائل کے رہنماء حاجی عبدالرحمن بازئی، حضرت افغان نے جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔مقامی قبائل کمیٹی کوئٹہ بلوچستان کے سربراہ یوسف کاکڑنے کہا کہ مقامی قبائل گزشتہ طویل عرصے سے ضلع کوئٹہ میں قبائل کی جدی پشتی،موروثی،بلا پیمودہ اراضی پر لینڈ مافیا کی جانب سے قبضہ گیری کے خلاف جدوجہد اور احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں یہ بات باعث مسرت ہے کہ طویل پر امن جدوجہد کے بعد آج صوبے کے تمام قبائلی رہنماء و سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تمام قبائل کے درمیان انکی اراضی اور علاقوں کا تعین ہوچکا ہے انگریزکے آنے کے بعد پہلی بار 1941اور دوسری بار1945میں زمینوں کی بندوبست ہوئی قانون کے مطابق یہ عمل ہر 25،30سال کے بعد ہونا اور پانچ سال کے بعد جمع بندیاں ضروری تھیں مگر 70سے 80سا ل گزرنے کے باوجود بندوبست نہ کیا جاسکا 1972میں بھٹو حکومت کی ریفارمز پالیسی میں بھی اس وقت کے گورنر بلوچستان کے واضح احکاما ت کو نظر اندازکیا گیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان بھر اور خاص طور پر کوئٹہ میں صوبائی حکومت میں شامل بااثر افراد نے مخصوص مقاصد کے لئے بندوبست کامقصد شروع کیا لیکن اس میں بندوبست کے قوانین کے برعکس بازئی،کاسی، شاہوانی، کیرانی سادات،چشمہ اچوزئی اور ہنہ اوڑک میں قبائل کی زمینیں ایسے لوگوں جنکا ضلع کوئٹہ کی جائیدادوں سے کوئی تعلق نہ تھا کو بھاری رقوم کے عیوض قبائل کی بلا پیمودہ زمینوں کی الاٹ منٹ کا سلسلہ شروع کیا گیا قبائل کی مذاحمت کے بعد اس دور کی حکومت نے کمیٹی بنائی جس نے مکمل چھان بین کے بعد 1993کے آرڈیننس 1995کے نوٹیفکیشن اور 1996کے ایکٹ کے تحت و ہ تمام لیز الاٹ منٹ غیر قانونی قرار دیں اور 1986سے 1995تک بندوبست کے عمل کے دوران کی گئی تمام کاروائیاں منسوخ کردیں لیکن بدقسمتی سے اب تک منسوخ شدھ ریکارڈ کو چلایا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں عوامی منشاء اور قبائل کے مفادات کے برعکس ڈی ایچ اے کے نام پر جو بل پاس کیا وہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتی تھی اس حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہیں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے پورے صوبے میں بندوبست کاعمل شروع اور سیٹلمنٹ کے عمل کو غیر جانبدارافراد کے ذریعے ممکن بنائے اور منسوخ شدھ ریکارڈ پر عمل آمد کو یقینی کرے انہوں نے کہا کہ چشمہ اچوزئی میں آباد قبائل کی بندوبستی اراضی پر خانہ بدوشوں کی صورت میں جھگی نما آبادکاری قبائلی دشمنی کا سبب بن سکتی ہے مذکورہ اراضی و اگزار کروائی جائے نوحصار میں بازئی قبیلے کی 1500ایکڑ اور 1941میں لی گئی 600ایکڑ ارضی غیر متعلقہ افراد اور قوم کو الاٹ منٹ منسوخ کی جائے ریگی چوک تا کلی باروزئی 3660ایکڑ اور مسلخ جنگلات کے 12ہزار ایکڑ،ریگی چوک پر عیسیٰ خیل قبائل اور بازئی قبائل کی مشترکہ اراضی پر قبضہ اور الاٹ منٹ منسوخ کی جائے اختر آباد اور سریاب میں شاہوانی،کیرانی سادات،ہنہ اوڑک میں یاسین زئی قبائل کی اراضی کی سیٹل منٹ بھی منسوخ اور ملازئی میں وزیراعظم ہاؤسنگ اسکیم کے لئے الاٹ زمین کا معاوضہ ادا کیاجائے سرہ غڑگئی میں تکتو ہاؤسنگ اسکیم ختم کی جائے انہوں نے کہا کہ گوادر میں باڑ لگانے کا عمل قابل مذمت ہے حکومت یا اداروں کو جہاں بھی زمین کی ضرورت ہو وہاں کے قبائل اور زمینداروں کو اعتماد میں لیکر مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین کی ادائیگی کی جائے لینڈ مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔اس موقع پربلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ جب گزشتہ سال نصیر آباد میں اراضی میں قبضے کا مسئلہ ہوا تھا تو ہماری جماعت نے آواز بلند کرنے کے ساتھ نواب حاجی لشکری خود وہاں پر گئے تھے عوام سے ہونے والی نا انصافیاں برداشت نہیں کریں گے گوادر کو سمارٹ سٹی کے نام پر باڑ لگا کر پنجرے میں تبدیل کردیا گیا ہے ملک کے دوسرے شہروں سمیت پوری دنیا میں سمارٹ اور سیف سٹی کے نام پر کہیں باڑ نہیں لگائی گئی سندھ بلوچستان کے جزائر پر وفاقی حکومت کا قبضہ تسلیم نہیں کریں گے قبائل کی اراضی کے لئے ہمیشہ آواز بلند کریں گے۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی سنیئر نائب صدر سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ قبائل کی اراضی پر قبضے کا سلسلہ انتہائی نازک اوراس سے پورا صوبہ متاثر ہے گزشتہ سال نصیر آباد سے زمینداروں نے اپنی اراضی پر قبضے کے خلاف کوئٹہ تک لانگ مارچ کیا تھا انہوں نے کہا کہ ہماری 90فیصد اراضی آج بھی بغیر بندوبست ہے صرف 10فیصد اراضی کی بندوبست ہو سکی ہے ہماری 400سال پرانی اراضی ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت باربار آرڈیننس جاری کر کے ہمارے جزائر اور قبائل کی اراضی پر قبضہ کر رہی ہے گوادر میں باڑ لگانے سے انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے حکومت یہ سلسلہ ترک اور اراضی پر قبائل کا حق تسلیم کرے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ اگر چہ اراضی پر قبضوں کے حوالے سے قبائل کی جدوجہد کئی سال سے جاری ہے خوشی اس بات کی ہے کہ آج صوبے کی سیاسی قیادت اور قبائلی رہنماء ایک پلیٹ فارم پر متحدہوگئے ہیں یہ سلسلہ جاری رہا تو اس مسئلے سے نمٹنا مشکل نہ ہوگا انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے کبھی کبھار ہم مصلحت کے تحت ایسے قوانین کا شکار ہو جاتے ہیں جو عوام کے مفادات کے برعکس ہوتے ہیں ایسا کچھ ڈی ایچ اے کے ایکٹ کے حوالے سے بھی ہوا مگر ہم عوام کے حقوق کی بات کرتے رہیں گے عوام کے حقوق سے متصادم اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے مقامی قبائل کمیٹی کو بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کو بھلا کر مستقبل میں بلوچ پشتون اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے غیر شعوری سیاست اور نعروں سے گریز کرنا ہوگا۔پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری عبدالرحیم زیاتوال نے کہا کہ ہمارے صوبے کے ریونیو ایکٹ میں الاٹ منٹ کا کوئی لفظ نہیں سیلٹ منٹ بلا پیمودہ اراضی،چراگاہیں شامل ہیں یا پھر مشترکہ اراضی جنہیں شاملات کہتے ہیں کا تصور ہے ہماری پارٹی کے رہنما حمید خان اچکزئی نے میر تاج محمد جمالی کے دور میں قبائل کی اراضی کی الاٹ منٹ منسوخ کروائی تھی ہمارے دور حکومت میں سیٹل منٹ کا کام شروع کردیا گیا تھا شیخ جعفر خان مندوخیل کی سربراہی میں جدید خطوط پر کمپیوٹرائزڈ سیٹل منٹ کی جارہی تھی جس میں 100میں سے 70ایکڑ قبائل اور 30ایکڑ حکومت کے پاس جانے کی تجویز تھی ہم نے اپنے دور میں بازئی قبائل کی اراضی پر قبضہ ہونے نہ دیا انہوں نے کہا کہ طریقہ کار یہ ہے کہ جو اراضی حکومت کو الاٹ ہو وہ کسی انفرادی مقصد کے لئے استعمال نہیں ہو سکتی انہوں نے کہا کہ ماضی میں کوڑیوں کے دام لسبیلہ میں زمین الاٹ کی گئی زرغون غر میں ہم نے اپنے دور میں 5ہزار ایکڑ اراضی الاٹ نہ ہونے دی مگر موجودہ دور میں 7ہزار ایکڑ اراضی الاٹ کردی گئی ہم نے ڈی ایچ اے کو کوئی زمین نہیں دی انہوں نے زور دیا کہ لینڈ مافیا کی سرگرمیاں روکی اور قبائل کی اراضی پر لینڈ مافیا کی سرپرستی میں خانہ بدوشوں کی قبضہ گیری روکی جائے۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنماء شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور قبائل اس بات پر متفق ہیں کہ اراضی کے حوالے سے بلوچستان کے عوام سے نا انصافی ہورہی ہے جسکو روکنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور قبائل کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ڈی ایچ اے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو کچھ باقی تین صوبوں میں نہیں وہ یہاں پر کیوں ہورہا ہے باقی شہروں میں بھی ڈی ایچ اے سمیت بڑی بڑی ہاؤسنگ اسکیمیں موجود ہیں یہ ایک سہولت جسے ہم نے خود کابینہ میں ویلکم کیا تھا اور کہا تھاکہ اس سے کوئٹہ شہر میں ہاؤسنگ کے شعبے میں بہتری آئیگی تاہم یہاں ڈی ایچ اے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست نہیں تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما روزی خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچ پشتون قبائل متحد ہوکر ہی اپنے مسائل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں آج یہاں پر سب کی موجودگی خوش آئند ہے عوام کے حقوق کا دفاع حکومت کو کرنا چاہیے تھا جو آج ہم کر رہے ہیں،بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں میں ایک بے چینی ہے قبائل نے جس مسئلے کو اٹھایا ہے وہ انتہائی اہم ہے افسوس یہ ہے ریاست قبضہ گیری کی طرف جارہی ہے لگ رہا ہے ملک پر بیرونی قوت مسلط ہے جو اندورنی حالات کو خراب کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ ریاست اور ریاستی ادارے مخلص اور سنجیدہ ہیں کہ مسائل حل ہوں وہ بلوچستان اور یہاں کے قبائل کے مسائل کو حل کریں انہوں نے کہا ہم اتحاد اور پرامن زندگی گزار رہے ہیں ہم چاہتے ہیں ہماری روایات اور رسم و رواج کو پامال اور زمینوں پر قبضہ نہ کیا جائے تاکہ ایک بڑی مذاحمت اور شورش کو روکا جا سکے اگر ایسا نہ کیا گیا تو اسکی ذمہ داری ریاست اور حکومت وقت پر عائد ہوگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے