حکمران طبقے کی لڑائی اورعوام کی بدحالی
تحریر: محمد رمضان اچکزئی
2018ء کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے عنان اقتدار سنبھالی۔اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے 22 سالوں میں عوام کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں اور تبدیلی کے نعروں نے عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا کیاتھا کہ تبدیلی سرکار عوام کو روزگار،رہائش،تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرکے اور مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی و بدامنی سے نجات دلا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔عوام کو امید تھی کہ وزیر اعظم عمران خان چونکہ یورپ اور برطانیہ میں پلے بڑے ہیں اوروہاں کے ماحول اور جمہوریت سے واقف ہیں اس لئے اپنے ملک میں بھی ایک ایسی جمہوری فضاء قائم کریں گے جس میں آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہوگی،وزیر اعظم سمیت تمام منتخب نمائندگان عوام کو جوابدہ ہونگے، وہ اپنے اپنے حلقوں میں ہفتے کے دو دن عوام کے مسائل سنیں گے اور ان مسائل کو اسمبلیوں میں اٹھائیں گے اوراپوزیشن کے ساتھ مل کر ایسی قانون سازی کریں گے جس میں حکمران، اپوزیشن ارکان، تمام اداروں کے سربراہان اور بااختیارشخصیات جوابدہ ہونگی،ایسا عدالتی و احتسابی نظام قائم کیا جائے گا جس میں حکومت کی مداخلت نہیں ہوگی بلکہ وہ حلف اٹھا کر اللہ کے سامنے جوابدہ ہوکر پورے ملک کے شہریوں کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق سلوک رواء رکھیں گے،وزیر اعظم عمران خان نیلسن منڈیلا کی طرح پورے پاکستان کے شہریوں کو پاکستانی کہنے، کہلوانے اور بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے، ملک میں مذہبی رواء داری بالخصوص اسلامی فرقہ بندی، لسانی اورقبائلی لڑائیوں کا خاتمہ ہوگا اورہر شخص کی پہچان ریاست کے شہری کی حیثیت سے ہوگی اور آئین کے مطابق ریاست کے تمام شہری برابر ہونگے،ریٹائرڈ جج،ریٹائرڈ جرنل، ریٹائرڈسیکریٹری،ریٹائرڈ آئی جی،ریٹائرڈ کمشنر، ریٹائرڈڈپٹی کمشنر، سردار، نواب، خان، چوہدری،وڈیرے اور بڑے بڑے معتبرین بھی عام شہری کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے اور ان کو دوسرے شہریوں پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔اس لئے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اپوزیشن کو اپنا دشمن گرداننے کے بجائے اپوزیشن سے بہتر تعلقات قائم کرکے مکالمے کے ذریعے ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرتی، اپوزیشن کے ساتھ مل کر شفاف اور غیرجانبدار الیکشن کیلئے الیکشن کمیشن کو مضبوط بنایا جاتا اور معاشی ترقی کیلئے مل کر کام کیا جاتا اور جہاں جہاں الیکشن پر اعتراضات ہوتے ان کیلئے چند مہینوں میں الیکشن کمیشن، الیکشن ٹربیونل اور کورٹس کے ذریعے فیصلوں کی قانون سازی کی جاتی تاکہ عوام کو اپنے منتخب نمائندوں پر اعتماد رہتا اور انہیں معلوم ہوتا کہ اس ملک میں ووٹر کی عزت موجود ہے اورآئندہ الیکشن میں بھی عوام اپنے ووٹ کیلئے نکلتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے ووٹ سے ہی حق حکمرانی ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس حکومت نے جو کہ ریاست مدینہ کی دعویداربھی ہے اس نے پہلے ہی دن سے اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی، بدتمیزی، چوراور ڈاکو کے بے مقصد نعرے بلند کرکے ملک میں افراتفری کی بنیاد رکھ دی۔آج وزیر اعظم عمران خان کی تبدیلی سرکار بد انتظامی، مہنگائی، بے روزگاری اور بے انصافی کی پستی کے دلدل میں پھنستی جارہی ہے، آٹے، چینی، گیس، پٹرول اوراشیاء خوردونوش کی مہنگائی نے آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کو دیا جانے والا زندہ رہنے کا حق بھی متاثر کر دیا ہے اورجون 2020ء میں مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے سے ملازم طبقہ مزید پریشانیوں میں دھنستا جارہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کے شراکت یا مقابلے کے رجحان سے اشیاء کی قیمتیں کئی کئی دہائیوں تک مہنگی نہیں ہوتیں لیکن ہمارے ملک میں چند ماہ کے اندر چینی52روپے سے مہنگی ہوکر102روپے تک پہنچی اوراب درآمد کے بعد 21 روپے کمی سے 81 روپے پر پہنچی ہے جس پروزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئیٹر پیغام کے ذریعے عوام کو خوشخبری سنائی ہے کہ چینی سستی ہو گئی ہے اورانہوں نے اپنے مشیروں کو شاباش بھی دی ہے جبکہ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے وقت چینی 52 روپے،100کلو آٹا 3000 روپے اورڈالر 110 روپے کاتھا اس لئے وزیر اعظم اپنی ٹیم کو اس وقت مبارکباد پیش کرتے کہ جب وہ اپنے منشور کے مطابق تمام اشیاء کے نرخ پہلے والے نرخوں سے کم سطح پر لاتے اور اسی صورت میں عوام کا اعتماد حکومت پر بحال ہوسکتا ہے۔حکومت آئی پی پیز میں 51 ارب روپے، آٹے اور چینی کے 404 ارب روپے اور ایل این جی دیر سے منگوانے میں 122 ارب روپے کے گھپلوں میں ملوث مافیاز کا احتساب کرکے عوام کی نظروں میں سرخرو ہوسکتی ہے۔ اس وقت عوام انتظار میں ہے کہ انہیں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان کب دیئے جائیں گے، انہیں سستا انصاف کب فراہم ہوگا اورانہیں تمام بنیادی سہولیات کب فراہم کی جائیں گی۔جبکہ دوسری طرف ملک کی گیارہ چھوٹی بڑی پارٹیوں کا اتحاد پی ڈی ایم وجود میں آچکا ہے جس نے اپنے کئی جلسوں کے ذریعے نہ صرف حکومت کی کارکردگی کو چیلنج کیا ہے بلکہ اپوزیشن نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز کرکے ملک کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔اس وقت حکومت اسٹبلشمنٹ کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے جبکہ پی ڈی ایم اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کے در پہ ہے تاکہ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیاں اپنے وہ اہداف حاصل کرسکیں جوکہ اسٹیٹس کو کے دوران انہیں کئی دہائیوں سے حاصل تھے۔آج بھی پی ڈی ایم کی پارٹیاں وراثتی سیاست کی علمبردارہیں اور 70سے 80سالہ بزرگ سیاستدان بچوں کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں اور عوام کی نگاہوں میں جمہوریت کو مذاق بنارہے ہیں۔پی ڈی ایم کے جلسوں میں ہر پارٹی کا اپنا ترانہ، اپناساز اور تقریر کااپنا انداز ہے وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ پی ڈی ایم کے اعلامیے کے مطابق پورے ملک میں واضح مقاصد کے ساتھ آگے بڑھنے سے انہیں عوام کا اعتمادحاصل ہوسکتا ہے۔ اس وقت عوام کی اکثریت اس پورے نظام سے مایوس ہے اور ان کے خیال میں حکمران جماعت اور اپویشن اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے دست وگریباں ہوکر ریاست کو کمزورکرنے اور عوام کو جینے کے حق سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت،اپوزیشن، عدلیہ، اسٹبلشمنٹ اور میڈیاسب مل کر اتفاق رائے سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اورحقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے فیصلے کرکے قانون سازی کریں اورذاتی دشمنیوں کو ترک کرکے تمام شہریوں، اداروں اور معتبرشخصیات کو آئین اور قانون کے تابع بناکر ملک کوانصاف، احتساب اورمساوات کے اصولوں کے مطابق چلانے کا بندوبست کریں۔حکمران اور اداروں کے سربراہان آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ملک کی ترقی جاری وساری رہنی چاہیے۔ ملک کو حقیقی اسلامی ریاست کے اصولوں کے تحت ہی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے جس کے بعدہمارا ملک بین الاقوامی دنیا میں اپنا مقام بنا سکتا ہے۔