بلوچستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنا سازش ہے، پرنس محی الدین بلوچ
منگچر:بلوچ رابطہ اتفاق تحریک (برات)کے سربراہ، خان آف قلات کے چچا اورسابق وفاقی وزیر پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی سازش ہے اور بلوچ عوام اس کے سخت خلاف ہیں اس اقدام کے خلاف ہرسطح پرمزاحمت کی جائے گی ان خیالات کااظہار انہوں نے برات کے ورکروں سے ملاقات اورمیڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہے کرونا کے نام پر محکموں کا برا حال کردیا ہے اس حوالے سے غلط اقدامات کے باعث کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ایک اسلامی ملک میں نظام غیر اسلامی چل رہی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے شمالی اور جنوبی بلوچستان کے نام پر کام ہورہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ دو صوبے بننے سے بلوچ عوام کو فائدہ ہوگا مگر اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ بلوچستان کیوسائل کو مکمل طور پر لوٹ لیا جائے گاانہوں نے کہا کہ دشمن ملک کونقصان پہنچانے میں سرگرم ہے تو ایسے موقع پر بلوچستان کاتقسیم کرنا خطرناک ثابت ہو گا انہوں نے کہا کہ تعلیم تباہ کی جارہی ہی ہے اساتذہ کو گھر بیٹھے اربوں روپے تنخواہ کے مد میں دئیے جارہے ہیں اور طالب علم تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ غیر اسلامی ملکوں کی مداخلت اور ہمارے حکمرانوں کی جی حضوری ہمارے مستقبل کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں پرنس محی الدین بلوچ نے کہا کہ حکومت میں شامل لوگ وکلا اور اساتذہ ہڑتال کررہے ہیں جس سے پتا لگتا ہیکہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں انہوں نے مقتدر قوتوں سے گزارش کی ہے کہ وہ پارلیمانی لوگوں کی پشت پناہی چھوڑ دے اور عوام کو اعتماد میں لیکر ملک کی ترقی و استحکام کے لیے کام کرے انہوں نے کہا بلوچستان کے وسائل کہاں خرچ ہورہے ہے یہ بتایا جائے ایک حکومت اگر سچی ہے تو ایک بڑا کنونشن کوئٹہ میں کرایا جائے جس میں نوجوان سیاسی سماجی و قبائلی سطح کے لوگ بلوچستان کے سرکردہ شخصیات کو مدعو کیا جائیاور یہ بتایا جائے کہ بلوچستان کا پیسہ یہ جو معدنیات سے ملتا ہے وہ بلوچستان ہی کہ لوگوں پر خرچ کیا جاتا ہے انہوں نے کہا بلوچستان کے عوام میں ایک عرصے سے جو احساس محرومی پایاجاتا ہے ختم ہو سکے ملک بھر میں میں حکومت کا نظم و ضبط بلکل نظر نہیں آتا حکومت کی کارکردگی دگی صرف اخبارات میں نظر آرہی ہوتی ہے باقی اسکا وجود کہیں نظر نہیں آتا انہوں نے کہاہے کہ بلوچوں کو نظرانداز کرنا اوردیوار سے لگادینا درست نہیں بلوچوں کو ان کے حقوق دینے ہونگے بلوچوں کو ہردورحکومت میں نظرانداز کیا گیا ہے اورحکمرانوں نے اپنے مفادات کے لیے بلوچ قوم کے حقوق سلب کی ہے جب بھی بلوچوں نے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے انہیں غدارقراردیکر ان کے خلاف طاقت استعمال کرکے انہیں دبانے کی کوشش کی گئی ہے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچ قوم کے انتنے حق وحقوق ہیں جودیگر اقوام کے ہیں قیام پاکستان کے وقت ان کے والد والی قلات محترم میراحمدیارخان بلوچ نے انگریزوں کے اس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا کہ اگر گرم پانی سو سال تک برٹش حکومت کو لیز پردی جائے تو ریاست قلات کو اردن اورنیپال کی طرح آزاد حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا اورانہیں تمام مراعات اختیارات اورحقوق دیے جائیں گے جو ایک ریاستی مملکت کوحاصل ہے مگران کے والد محترم نے انگریزوں کی پیشکش کو ٹھکراکرکے اپنی آزادریاست کوپاکستان میں ضم کرکے پانی اوربلوچوں کی اس سرزمین سے وفاداری کا عملی ثبوت دیا تھا حکمران اپنی مفادات کے لیے بلوچوں کی حق وحقوق سلب کرنے اورانہیں غدارقراردینے وطیرہ بند کیا جائے اورانہیں وہ حق و حقوق د یے جائیں جودیگر پاکستانیوں کو دی جارہی ہے کیونکہ بلوچ قوم دیگر اقوام کی طرح محب وطن اوروفادار ہیں۔