کابل یونیورسٹی میں کتب میلے کے دوران دھماکا، ہلاکتوں کی تعداد 25 ہوگئی
کابل:افغانستان کے دارالحکومت کی کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتب میلے کے افتتاح کے موقع پر دھماکے کے بعد فائرنگ کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ کابل یونیورسٹی میں ہونے والے حملے میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا تھا کہ ‘کابل یونیورسٹی حملے میں تین افراد ملوث تھے، ان میں سے ایک نے شروع میں ہی خود کو اڑا دیا جبکہ دیگر دو حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا’۔
افغان نیوز ایجنسی طلوع کی رپورٹ کے مطابق ‘حملہ آوروں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان 6 گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا تاہم فورسز نے تمام تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا’۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کابل میں 10 روز کے اندر تعلیمی ادارے میں یہ دوسرا حملہ ہے، ایک ہفتہ قبل ایک تربیتی سینٹر میں خود کش دھماکا ہوا تھا جہاں 30 سے زائد شہری جاں بحق ہوئے تھے۔
اس سے قبل وزارت صحت کے ترجمان اکمل سمسور نے ابتدائی طور پر بتایا تھا کہ حملے میں اب تک 8 افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے دشمن، تعلیم کے دشمن کابل یونیورسٹی میں داخل ہو ئے اور حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ انتہائی محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ طلبہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
ادھر طالبان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں لیکن حالیہ عرصے کے دوران شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
وزارت اعلیٰ تعلیم کے وزیر حامد عبیدی نے کہا تھا کہ فائرنگ اس وقت شروع ہوئی جب کتب میلے میں افغان حکومتی عہدیداران کی آمد کی اطلاع ملی۔
وزارت صحت کے نائب ترجمان معصومہ جعفری نے بتایا تھا کہ ابتدا میں 4 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے لیکن زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔حملے کے بعد طلبہ میں افراتفری پھیل گئی اور یونیورسٹی میں شدید خوف و ہراس کا ماحول دیکھا گیا۔
ایک 23 سالہ طالب علم فیردون احمدی نے کہا کہ ہم اپنے کلاس روم میں پڑھ رہے تھے کہ ہمیں یونیورسٹی کے اندر گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی، کچھ طلبہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، یہاں بہت افرا تفری ہے اور طالبعلم خوفزدہ ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کابل کے مغربی ضلع میں ایک تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور اس حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی۔
2018 میں کابل یونیورسٹی کے سامنے خود کش بم دھماکے میں نوجوان طالبہ سمیت درجنوں افراد مارے گئے تھے اور اس حملے کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔
2016 میں کابل کی امریکی یونیورسٹی میں مسلح حملہ آوروں نے دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے مقصد کے تحت پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز 12 ستمبر کو ہو چکا ہے۔
دوحہ میں ہونے والے تاریخی امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب کا آغاز قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے کیا، جس میں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد شریک تھے۔
مذاکرات میں فریقین ان مشکل معاملات سے نمٹنے کی کوشش کریں گے جس میں مستقل جنگ بندی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور ہزاروں طالبان جنگجو اور ملیشیا کا غیر مسلح ہونا شامل ہے، جس میں سے کچھ حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہیں۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن عمل کے تحت مذاکرات کے آغاز کے باوجود افغانستان میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور آئے روز دھماکے اور حملے ہوتے رہے ہیں۔
بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں افغان حکومت اور امریکا سمیت دیگر اتحادیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم طالبان نے مذاکرات کی میز پر آنے سے قبل عارضی جنگ بندی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
افغان حکومت کی جانب سے امن عمل کی سربراہی کرنے والے عبداللہ عبداللہ نے تجویز دی کہ طالبان اپنی جنگجو قیدیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی کی پیشکش کرسکتے تھے، ‘یہ ان کے خیالات میں سے ایک خیال یا ایک مطالبہ ہوسکتا تھا’۔
خیال رہے کہ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 40 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ 29 فروری کو معاہدے کے چند ہفتوں میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔
امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔