طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں مگر بلوچوں سے نہیں،سردار اختر مینگل
کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بغیر اختیار کے اقتدار بے معنی ہے میں نے آج تک خود کو اس خوش فہمی ڈالا ہے اور نہ ہی ڈالنے کی کوشش کی ہے بلوچستان کو ایک یونٹ کی بجائے ہمیشہ ایک کالونی کی طرح ٹریٹ کیا گیا ہے لوگ شوق سے ہتھیار نہیں اٹھاتے بلکہ احساس محرومی،مظالم سے لوگ مجبور ہوکر پہاڑوں پر چلے گئے ملک میں کوئی بھی حکمران پنجا ب کے ووٹ کے بغیر نہیں آسکتا تبدیلی کی ہوا کا سلسلہ جاری رہا تو حالات بدل سکتے ہیں طالبان سے اگر مذاکرات ہوسکتی ہے تو بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والوں سے کیوں نہیں ہوسکتی بلوچستان نیشنل پارٹی نے کبھی عسکریت پسندی کی حمایت نہیں کی لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ہے جس کے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتابلوچستان نیشنل پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے عدم اعتماد کی تحریک اور استعفوں کے منظوری دی ہے اب پی ڈی ایم کی قیادت جو فیصلہ کرے گی ہم اس کے ساتھ چلیں گے میں اقتدار کی ان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کیا سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کی محرومیاں آج کی نہیں 70سالوں سے ہیں ملک میں 70سالوں سے حکمرانی کرنے والے پنجاب کے بغیر اقتدار پر نہیں آئیں اور نہ ہی آسکیں گے پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہوتی ہے یہ گلہ کل بھی تھا ٓآج بھی ہے اور اگر یہی حالات رہیں تو مستقبل میں بھی یہ گلہ رہے گا ہم پنجاب کو اپنی فریادیں سناتے رہتے ہیں یہ پنجاب کی عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں سے پوچھیں سردار اختر مینگل نے کہا کہ مسئلہ صرف بے روزگاری کا نہیں دیکھا جائے صر ف فیڈرل کوٹہ پر عملدرآمد کرایا جاتا تو بلوچستان کی بیر وزگاری ایک حد تک کم ہوسکتی تھی بلوچستان کے وسائل سے اگر بلوچستان کے لوگوں کو مستفید کرایا جاتا تو شاید ان محرومیوں کا ایک حد تک ازالہ ممکن تھا انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے بلوچستان کو ایک یونٹ کی بجائے ایک کالونی کے طرز پر د یکھا گیا ہے اس کالونی میں میڈیا،اظہار رائے کااظہار،ووٹ دینے پر پابند ی عائد ہوتی ہے یہ سلسلہ بلوچستان کے شرو ع ہوگیا ہے جو ملک کے دیگر علاقوں تک بھی پہنچ گیا ہے ہم روز اول سے کہتے آرہے ہیں کہ خدا را ہم پررحم کیا جائے ہماری آواز دبائی جارہی ہے کل تک یہ نوبت آپ تک پہنچ سکتی ہے آج وہی ہورہاہے انہوں نے کہا کہ آج ملک کے دوسرے علاقوں سے صحافی لاپتہ اور سیاسی رہنماؤں کی آواز دبائی جارہی ہے بلکہ بیلٹ کو بولٹ کے ذریعے تبدیل کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے امکانات نظر آرہے ہیں طالبان جو اسکولز،سیکورٹی فورسز،مساجد،چرچ،مندروں پر حملوں میں ملوث ہیں سے مذاکرات کرسکتے ہوں لیکن بلوچستان کی بات کرنے والے جو باہر بیٹھے ہیں یا ملک کے اندر بیٹھے ہیں سے مذاکرات گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے لاپتہ افراد کا مسئلہ 1976 سے شروع ہوا جب میرے بھائی اسدمینگل کو لاپتہ کیا گیا تھا پھر اس کے بعد مشرف دور سے یہ سلسلہ متواتر کے ساتھ جاری ہے اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتیں آئیں ان کے سامنے بارہا میں نے یہ مسئلہ رکھا شاید ان کے بس کی بات نہیں تھی جو اب وہ اظہار بھی کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر آرمی چیف سے بھی ملا اور ان کے سامنے اپنا مدہ پیش کیا اور تمام فہرستیں دیں قومی اسمبلی میں جو لسٹ میں نے پیش کی ان میں 450لوگ با زیاب ہوئے لیکن اسی دوران 1500کے قریب اور لوگ لاپتہ ہوگئے بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے تک صوبے کا نہ تو سیاسی مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی معاشی مسئلہ حل ہوسکتا ہے اگر اختیارات کے مالک منتخب نمائندگان ہوں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے الیکشن کے فوراً بعد ہم نے کہا تھا کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا ہے ہم حکومت کا حصہ نہیں تھے بلکہ ووٹ دیا حکومت کا حصہ ہم تب ہوتے اگر ہم کوئی وزارت لیتے اور نہ ہی وزیر کیلئے کوئی نئی شیروانی سیلوائی ہے بلوچستان کے لوگوں نے ہمیں مینڈیٹ ان ایشوز پر دیا تھا جن میں سر فہرست لاپتہ افراد کا تھا حکومت سازی کے دوران ان ایشوز پر پیپلز پارٹی ہوا یا مسلم لیگ(ن) ان سے بات کی لیکن انہوں نے واضح جواب دیا اور پی ٹی آئی تو ہم نے ان کے سامنے یہ نکات رکھیں پھر وہ خود کوئٹہ ا ٓئی تھی ہمارے ساتھ چھ نکات پر تحریری معاہدے پر دستخط کرکے گئی تھی مگر اس پر عمل نہیں کیا اس لئے ہم نے راستہ الگ کردیئے ہم حکومت کے اتحادی نہیں تھے ہم نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا، بجٹ پر ووٹ دیا مگر یہ ہمارے معاہدے کے ساتھ مشروط تھاانہو ں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب حکومت میں بیٹھے لوگ حکومتی پالیسی سے تنگ آکر اپوزیشن کا ساتھ دیں تاہم اگر ہمیں ابھی موقع ملا تو ہم اپنا آئینی حق استعمال کرینگے کیونکہ سیاسی صورتحال گرم ہے وفاق میں عوام کی 100فیصد منتخب حکومت آئی تو امید ہے نہ صرف بلوچستان بلکہ وفاق کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے جام کمال ہم پر الزام لگاتے ہیں تھوڑا ارد گرد بھی دیکھیں کہ حکومت نے جلسے کی ناکامی کیلئے مختلف حربے استعمال کئے لیکن جب ان کا بس نہ چلا تو سسٹم کو جام کر دیا ہم نے یہاں زندگی گزاری ہیں ہمیں پتہ ہے کہ کیا کیا ہوسکتا تھا حکومتیں گرانے اور بنانے والی قوتوں سے امید نہیں کہ وہ اس حکومت کو گرائے گی موجودہ حکومت کی اپنی نااہلی ہے آج پی ٹی آئی کے اپنے ممبران قومی اسمبلی میں مہنگائی کا رونا روتے ہیں موجودہ حکومت کو رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا بی این پی پی ڈی ایم کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ ہوگی چاہیے وہ تحریک عدم اعتماد کا ہو یا پھر استعفوں کا بلوچستان کے لوگوں نے جلسے سے ثابت کردیا کہ سیاسی جدوجہد میں وہ کسی سے پیچھے نہیں پارٹی کے مرکزی کمیٹی اجلاس میں اگر پی ڈی ایم کی طرف سے استعفوں کا فیصلہ آتا ہے تو اس کی بھی منظوری لے لی ہے اگر تحریک عدم اعتماد آتا ہے تو اس کی بھی منظوری لے لی ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنا اپنا موقف ہے مجھے کسی کے موقف سے اختلاف نہیں اور نہ ہی کسی کو حق ہے کہ وہ میرے موقف سے اختلاف رکھیں پی ڈی ایم کا بنیادی اور اہم موقف ملک میں صاف شفاف اور غیر جابندار الیکشن اور حقیقی جمہوریت قائم ہو انہوں نے کہا کہ سی پیک کی پہلی اینٹ ٹہنی رکھی گئی ہم نے روز اول سے کہاتھا کہ سی پیک سے فائدہ بلوچستان کو ہوناچاہیے 8سال گزرنے کو ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ملا گوادر اور بلوچستان کے بغیر سی پیک نا مکمل ہے دوسرے صوبو ں میں موٹر ویز اور اورنج ٹرینیں بن گئی لیکن ہمیں بلیک روڈ تک نہیں دی گئی ہے گوادر کے لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں اگر تبدیلی کا یہی سلسلہ رہا تو حالات بدل بھی سکتے ہیں بلوچستان میں پہاڑوں پر جانے والے ناراض لوگوں کی ناراضگی کی وجوہات ظلم زیادتی اور محرومیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ اس حد تک پہنچے ہیں آج غداروں کی تعداد تھوڑی بڑھ گئی ہے اور ہمیں تنہائی محسوس نہیں ہورہی حکمرانوں نے غداروں میں اضافہ کردیا پہلے جو ہمارا اکیلا پن تھا وہ ختم ہوگیا جس پر غداری کا الزام لگتا ہے تو اس کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ کبھی نہ کبھی اپنے وطن سے اظہار محبت کی ہوگی بغیر اختیار کے اقتدار بے معنی ہے میں نے آج تک خود کو اس خوش فہمی ڈالا ہے اور نہ ہی ڈالنے کی کوشش کی ہے اقتدار میں رہنے کے بعد زوال کا بنیادی وجہ یہ تھا کہ ان کے پاس اقتدار توتھا لیکن اختیارنہیں تھا جن لوگوں نے اختیار حاصل کرنے کی کوشش کی انہیں گھر بھیج دیا گیا انہوں نے کہا کہ الزامات لگتے رہتے ہیں اور الزامات کے بعد انہی لوگوں کو حکومتوں میں شامل کیا جاتا ہے مختلف ممالک پر بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کو سپورٹ کرنے یا بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کو سپورٹ کرنے کا الزام ہے وہی لوگ پھر پارلیمنٹ کا حصہ رہیں عسکریت پسندی اختیار کرنے کے پیچھے ایک بڑی داستان ہے اگر روز اول سے احساس محرومی ختم کی جاتی تو شاید لوگ ہتھیار نہیں اٹھاتے لوگوں نے شوق سے ہتھیار نہیں اٹھا ئے بلکہ انہیں مجبور کیا گیا اور باعث مجبوری اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں نواب اکبر خان بگٹی 80سال کے عمر میں اس پوزیشن میں تھے کہ وہ ہتھیار اٹھاتے بلوچستان نیشنل پارٹی نے کبھی کسی عسکریت کی حمایت نہیں کی تاہم لاپتہ افراد پر ہمارا موقف ہے کہ اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے انہوں نے سوال اٹھا یا کہ کیا یہاں پر ملک تھوڑنے والوں کو وہ سزا دی گئی ہے جو حق مانگنے والوں کو دی جارہی ہے۔