سندھ ہائیکورٹ کا 13 سالہ لڑکی کو بازیاب کرواکر دارالامان منتقل کرنے کا حکم
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے جبری طور پر مذہبی تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی سے قبل مبینہ طور پر اغوا کی گئی 13 سالہ مسیحی لڑکی آرزو کو دارالامان منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا جج نے حکم دیا کہ پولیس اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے لڑکی کو بازیاب کرایا جائے اور اسے دارالامان منتقل کیا جائے، مذکورہ معاملے کی اگلی سماعت جمعرات کی صبح ہوگی، مزید یہ کہ میرے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میری طرف سے ایک انٹروینر دائر کیا جائے گا۔
ادھر آرزو کے والدین کی طرف سے کیس لڑنے والی ٹیم کا حصہ ہونے والے ایکٹوسٹ اور وکیل جبران ناصر نے بھی مذکورہ پیش رفت کی تصدیق کی اور لکھا کہ سندھ ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر لڑکی کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ نوٹ کیا کہ لڑکی کی عمر اور اگر شادی قانونی ہے تو کیا آیا جبری طور پر مذہب تبدیل کیا گیا کے معاملات کو دیکھا جائے گا۔
جبران ناصر کے مطابق انہیں حکومت سندھ پر بھروسہ ہے اور پولیس آرزو کی بازیابی کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے بچوں کو بچانے کے لیے، حکومت، عدلیہ، وکلا، سول سوسائٹی اور میڈیا کو ایک صفحے پر ہونا چاہیے، ہم سب کو اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے‘۔
علاوہ ازیں حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ عدالت نے صوبائی حکومت کی جانب سے دائر درخواست پر ہدایات جاری کیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 13 سالہ آرزو کے مبینہ اغوا اور جبری مذہبی تبدیلی اور مسلم شخص سے کم عمری میں شادی کے خلاف انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔
واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ آرزو کے والد راجا کی مدعیت میں درج کی گئی تھی، جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ 13 اکتوبر کو وہ اور ان کی اہلیہ کام پر گئے تھے جبکہ ان کا بیٹا شہباز اسکول گیا تھا۔
شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ آرزو سمیت ان کی 3 بیٹیاں ریلوے کالونی میں ان کے گھر میں موجود تھیں کہ جب انہیں ایک رشتے دار کی کال موصول ہوئی کہ آرزو گھر سے غائب ہے۔
راجا کا کہنا تھا کہ وہ گھر پہنچے اور انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے رابطہ کیا لیکن بیٹی کا کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
بعد ازاں انہوں نے فریئر تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔
قبل ازیں آرزو کے اہل خانہ نے ڈان کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا مبینہ شور اظہر ان کے گھر کے سامنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا اور اس کی عمر 45 سال تھی۔
آرزو کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’جس بدمعاش نے اسے (بیٹی) کو اغوا کیا اس نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ یہ 18 سال کی ہے جعلی کاغذات تیار کیے‘۔
دوسری جانب پولیس نے لڑکی کے مبینہ شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کے دو بھائیوں سید شارق علی، سید محسن علی، ایک دوست دانش کو کم عمر لڑکی کے مبینہ طور پر اغوا، زبردستی مذہبی تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔
اس سے قبل ہفتے کو جوڈیشل مجسٹری نے آرزو کے اہل خانہ کی جانب سے اسے دارالامان بھیجنے کے لیے دائر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
آرزو کے اہل خانہ کی جانب سے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 100، بچوں کی شادی روکنے کے قواعد کے رول 5 کے ساتھ بچوں کی شادی روکنے کے قانون 2013، کے رولز 8، 9 اور 10 کے تحت درخواست دائر کی تھی۔
ادھر جبران ناصر نے اعتراض کیا تھا کہ لڑکی 13 سال کی تھی، لہٰذا تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اس معاملے میں بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون کی دفعات کو بھی شامل کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ شکایت کنندہ کی جانب سے تفتیشی افسر کو متاثرہ لڑکی کی عمر سے متعلق دستاویزات بھی فراہم کردی گئی تھیں اور وہی اس کی 13 سال عمر کو ظاہر کرتے ہیں۔
جبران ناصر نے نکتہ اٹھایا تھا کہ متاثرہ لڑکی کا ملزم اظہر کے ساتھ مزید رکنا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ کے لیے سزا) کے ساتھ دفعہ 375 (5)، (ریپ: 16 سال کے کم عمر ہونے پر رضا مندی یا بغیر رضا مندی کے ساتھ) کے تحت قابل سزا جرم کے زمرے میں آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ کی جانب سے متاثرہ لڑکی کی حراست کے لیے نہیں کیا گیا کیونکہ انہیں تفتیش کے لیے ڈی این اے ٹیسٹنگ اور دیگر ضروریات پر لڑکی کو دارالامان بھیجنے پر اعتراض نہیں تھا۔
مذکورہ کیس میں تفتیشی افسر انسپکٹر شارق احمد صدیقی نے کہا تھا کہ متاثرہ فریق سندھ ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوا تھا اور اسے 27 اکتوبر کے عدالتی حکم کی تعمیل میں تھانہ پریڈی کے ایس ایچ او کی حفاظت میں بھیج دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے متاثرہ لڑکی کے بے فارم کی تصدیق کی ہے جو قومی ڈیٹابیس اور رجسٹریشن اتھارٹی کے مطابق تھا جو اصلی تھا۔