پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کا نقشہ کھنچیں گے ، سردار اخترمینگل

لاہور :بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے ن لیگ کے نائب صدر مریم نواز سے ملاقات جاتی امراءمیں ملاقات کی ملاقات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات چیئرمین قائمہ کمیٹی آغا حسن بلوچ ‘ مرکزی کمیٹی کے ممبر ایم این اے حاجی ہاشم نوتیزئی ‘ ن لیگ کے رہنماءکیپٹن (ر) صفدر موجود تھے اس موقع پر دونوں رہنماﺅں نے موجودہ سیاسی صورت حال، بے روزگاری اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تبادلہ خیال کیا اور پی ڈی ایم کے تحت ہونے والے اب تک کے تمام جلسوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے پشاور دھماکے اور اپوزیشن رہنماﺅں کے خلاف بغاوت کے مقدمات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم پلیٹ فارم ہی حکومت سے نجات کا واحدحل ہے اس موقع پر سردار اختر جان مینگل نے مریم نواز کا ان کی دعوت پر کوئٹہ کے جلسے میں شرکت ‘ لاپتہ افراد سمیت بلوچستان کے دیگر مسائل پر آواز بلند کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب پنجاب کے عوام بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں یہ بات ہمارے لئے باعث مسرت ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی اب لاپتہ افراد کی بازیابی ‘ جملہ مسائل کے حل کیلئے آواز بلند کر رہی ہیں اس موقع پر مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کے مسائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے بھی آواز بلند کریں گے ہم تفریق ‘ تعصب پر یقین نہیں رکھتے ملک میں بسنے والے تمام اقوام ہمارے لئے قابل احترام ہیں اسی اثناءپارٹی قائد سردار اختر جان مینگل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ آج نہیں بلکہ 1971 کے بعد کبھی کبھی زیادہ چوری کیا گیا، پنجاب میں پہلے اتنی مداخلت نہیں تھی جتنی بلوچستان میں تھی لیکن اب اپنی مداخلت کی اس انتہا تک پہنچ گئے کہ اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر صرف اپنی کالونی بنارہے ہیں،بلوچستان سے پھیل کر اب پورے ملک تک آچکے ہیں، ہمارے جمہوری کلچر اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ احساس اگر کل ہوتا تو بہتر ہوتا لیکن اگر آج بھی ہوا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے،پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کا نقشہ کھنچیں گے ،عمران خان کو اقتدار میں لانے والے مطمئن نہیں تو عوام کیسے مطمئن ہوں گے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صد رمریم نواز سے جاتی امراءرائے ونڈ میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت کا ساتھ اس لیے چھوڑا کیونکہ بلوچستان کا احساس محرومی کم نہیں ہوا اگر کمی آتی تو ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے،اتحادی کچھ بنیاد اور نکات پر بنتے ہیں، کچھ وعدوں اور معاہدوں پر بنتے ہیں، جب کوئی ایک فریق اپنے ان معاہدات پر عمل نہ کرے اور اپنے وعدوں کا پاس نہ رکھے تو اس سے بڑی امید کیا رکھ سکتے ہیں۔انہوںنے مرکزی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسند والوں میں شامل تھے جب ہم ان سے مطمئن نہیں رہے تو حزب اختلاف اپنی جگہ دیگر لوگ کیسے مطمئن رہیں گے،ہم پوچھ رہے تھے ہمارے 6 نکات پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ہے، ان میں کون سی ایسی شق ہے جو غیرآئینی اور غیر قانونی ہے، اگر ایسا جرم ہم نے کیا ہے تو کیا اس پر دستخط کرنے والوں کو مجرم ٹھہرایا نہیں جاسکتا،جنہوں نے دستخط کیے ہیں وہ ایوان صدر اور اسپیکر کی کرسی میں بیٹھے ہوئے نہیں ہیں، انہوں نے ہمارے ساتھ جو معاہدے کیے تھے وہ پورا نہیں کرسکے۔انہوں نے کہا کہ یا تو پہلے دن کہہ دیتے ،حکومت سازی کے دوران ہمارے پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی مذاکرات ہوئے تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے،یہ بھی پہلے دن کہہ دیتے تو شاید نوبت اس حد تک تلخیوں تک نہ پہنچتی اور اسمبلی کے فلور پر ہم انہیں الوداع نہ کہتے ،ہمارے نکات میٹرو بس سے مشکل نہیں تھے،ہم تو ان کے ساتھ چل رہے تھے لیکن وہ رینگ رہے تھے تو ہماری ذمہ داری نہیں تھی ان کو کندھوں میں اٹھاتے، دو سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا ہے، اسمبلی اور تمام اجلاس میں انہیں یاد دہانی کرواتے رہے۔اخترمینگل نے کہا کہ جب انہوں نے ہمارے مطالبات نہیں مانے تو پھر ہمارا اخلاقی فرض تھا کہ ان کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے کیونکہ ہم کسی وزارت کے لیے ان کے ساتھ نہیں گئے تھے جبکہ دیگر اتحادی جو شامل ہوئے تھے یا بھجوائے گئے تھے ان کو وزارتیں ملیں،ہماری ڈائریکشن وہی ہے یوٹرن نہیں لیا ،بلوچستان میں یو ٹرن کے بورڈ بھی نہیں ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کیا ہم سمجھیں کہ اس وقت ملک میں حقیقی جمہوریت ہے، حقیقی جمہوریت ہوتی تو ان چینلوں پر پابندی نہ ہوتی، آپ کے مالکان پابند سلاسل نہیں ہوتے اور صحافی اغوا ءنہیں ہوتے،صحافیوں کو دھمکی آمیز فون نہیں آتے، اگر یہ جمہوریت ہے تو ایک انوکھی جمہوریت ہے۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل سابق حکمران جماعتوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام جماعتیں ماضی میں اقتدار میں رہی ہیں لیکن آج ہمارے موقف کی حمایت کر رہی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور قوت ہے جو لاپتہ افراد کے معاملات میں ملوث ہیں کیونکہ اگر یہ ملوث ہوتے تو آج ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے،جب پی ڈی ایم کا اجلاس ہوگا تو اسکرین کے ذریعے بتائیں گے دمادم مست قلندر کیسے ہوگا۔انہوں نے نواز شریف کے بیانیے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم تو کب سے اس بیانیے پر قائم ہیں بلکہ اس بیانیے کو بنانے والے ہم ہیں۔پشاور مدرسے میں دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بڑا ہی افسوس ناک اور درد ناک واقعہ ہے، اللہ سے دعا ہے کہ شہدا ءکو جنت میں جگہ دے، یہ حکومت کی ناکامی ہے، اگر اس میں بھارت سمیت کوئی بھی ملوث ہے تو اسکی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا ،یہ بات ہوئی ہے پی ڈی ایم کو مزید آگے کیسے لے کر جانا ہے۔ انہو ںنے کہا کہ مجھے تو بلوچستان میں کوئی حکومت نظر ہی نہیں آتی ،میں نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ سب کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے ،بلوچستان میں سب کا مینڈیٹ چوری ہوتا رہا ہے ،اب ان قوتوں کی نشاندہی ہونی چاہیے ،پنجاب میں شاید اتنی مداخلت نہیں ہوتی تھی جتنی بلوچستان میں ہوتی رہی ہے ،شاید اسی لئے پنجاب والوں کی بھی آواز اٹھنا شروع ہو گئی ہے ،جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے یہ اچھا شگون ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ جمہوریت کا علم تھامے رکھا ،پی ڈی ایم کے جلسوں کا سلسلہ جاری رہے گا ،ہمیں بھی حکومت کی طرح محاذ کھولنا ہوں گے ،حکومت اگر ہمیں ٹف ٹائم دے رہی ہے تو ہم بھی ٹف ٹائم دیں گے۔انہوںنے کہا کہ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کی میٹنگ ہوگی ، ہم نے محاذ کھولنے ہیں دمادم مست قلندر ہونے جارہاہے،بھارتی ایجنڈے کا چورن پرانا ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میٹرو بس بنانے سے زیادہ عمران خان کے پاس اختیارات نہیں ،جمہوریت کی بساط لپیٹنے پر کہوں گا کہ کیا جمہوریت ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے