سیاسی حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں ہم بلوچوں کو ہوشیار رہنا ہوگا،پرنس محی الدین

قلات(بیورورپورٹ)رابطہ اتفاق تحریک برات کے قائد پر نس محی الدین جان بلوچ نے کہاہے کہ موجودہ سیاسی حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں ہم بلوچوں کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ مرکزی سیاست میں ہمارے مفادات گم ہوجائیں گے۔پچھلے75سبالوں سے پھر پچھلے 30سالوں سے اور خاص کر گزرے ہوئے20سالوں سے باقی صوبے اور ان کے عوام نے بہت ترقی کی ہے صرف بلوچ قوم پیچھے رہ گئی۔اس کے باوجود بے پناہ وسائل کے یہ مرکز کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہی ہے ان خٰیلات کااظہار انہوں بلوچ ہاؤس میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ کہ ان کی پالیسی ہے کہ ”بلوچ کو دباؤ اور اس کے عوام کے وسائل اور زمینوں پر قبضہ کرو“ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بلوچستان کے روڈوں اور سرکاری بلڈنگوں پر کھربوں روپے اور بیرون ملکی زرمبادلہ خرچ ہوا ہے۔کوئی یہ تو بتائے کہ اس سے بلوچوں کو کیا اقتصادی یاحقوقی فائدہ پہنچا ہے ہاں کوئی100پارلیمانی لوگ اور نوکر شاہی کے100ملازموں کو ضرور فائدہ ملا ہے جنہوں ں نے بلوچوں کے حقوق کو دبانے میں مرکز کی امداد کی ہے۔میں نہایت سے عرض کرنا چاہونگا اگر گستاخی معاف ہو کہ اگر بلوچی عوام اور بلوچستان نے حقیقی معنوں میں ترقی کی تو وہ پیچھے مارشل لا میں کی۔مثلاً1978ء سے پہلے بلوچ علاقوں میں واپڈا کی بجلی نہی تھی اور1978ء کے بعد بجلی ہر گاؤں اور غریب علاقوں میں جب پہنچی اور پانی نکلا تو ہزاروں گاؤں اور لاکھوں لوگوں کو مالی فائدہ پہنچا وہ روزگار گے مالک ہوگئیاور ان کی زندگی ہی بدل گئی بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں۔یہاں میں ں مثال دوں کہ ستمبر1978ء کو ایک بیروزگار سیل میری سربراہی میں تشکیل دی گئی۔میں اور میرے نوجوان بلوچوں اور فوج کے افسروں پر مشتمل تھی۔ماشاء اللہ ایک ہفتے میں 350بلوچوں کو 16اور17گریڈ میں ملک کے مرکزی اداروں میں ملازمت ملی۔ 21جوان فوج میں بحیثیت افسر لگے اور سینکڑوں سپاہی بھرتی ہوئے تھے۔بلوچستان میں جہاں ٹیلیفون نہیں تھے وہاں ٹیلیفون کا جال بچھایا گیا۔ ساراوان،جھالا وان،مکران،فاران،نوشکی،لسبیلہ وغیر اورMicrewaveسے لے کر ایک20لائن کا ایکسچینج کا اورٹیکنیشن کے پوسٹ پر بھی ٹرین ہوئے اور ان کو کامیابی سے جلایا بلوچستان میں بھی تمام اداروں کے سربراہ بلوچ تعینات ہوئے۔یہاں تک کہ صوبے کا چیف سیکریٹری بھی ایک بلوچ لگا۔اللہ اور اس کے رسول کی برکت سے بلوچ علاقہ ملک کا سب سے پرامن منصوبہ رہا حالانکہ ہمسایہ ملک افغانستان میں ایک سپرپاور آگیا تھا مگر بلوچوں نے اپنی نظریں وہاں نہیں لگائیں کیونکہ وہ یہی اپنا فائدہ دیکھ رہے تھے۔آج کل حال یہ ہے نوکریاں نہیں ملتی اگر ملتی بھی ہیں تو ایک چھوٹے درجے سے لیکر بڑے افسر تک لاکھوں کی رشوت دینا پڑتی ہے اور پوسٹوں کایہ حال ہے کہ بڑی پوسٹ چیف سیکریٹری آئی جی پولیس تو باہر کے ہیں مگر ڈسٹرکٹ لیول افسر بھی باہر کے ہیں۔حالانکہ یہاں بلوچستانی افسر خود بہت ہیں میں بلوچ سیاسی پارٹیوں قبائلی لیڈروں ں وجوان تنظیموں اور سوشل ورکرز سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچ کے مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر آئیں۔متحد اور منظم ہوکر بلوچ کے حقوق کیلئے عملی جدوجہد کریں۔انشاء اللہ میں بلوچ رابطہ اتفاق تحریک بلوچستان کے صدر پرنس یحییٰ جان بلوچ اور برات کے ورکرز بلوچستان کراچی سندھ پنجاب اور بیرون ملک آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے تو ہرپارٹی اور تنظیم آزاد ہے کہ اپنا منشورکے تحت پارلیمانی جدوجہد کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے