کراچی اور بلوچستان میں بجلی ممبئی سے کنٹرول ہوتی ہے، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے ازخود نوٹس کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ کراچی میں بجلی کی تقسیم ممبئی سے کنٹرول ہو رہی ہے اور یوں لگتا ہے آخر میں اس کمپنی کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں کے الیکٹرک کے ایم ڈی، سی ای او اور چیئرمین نیپرا سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ایک بار پھر کے الیکٹرک کی کارکردگی پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ تمام لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے کے الیکٹرک حکام سے استفسار کیا کہ آپ کراچی میں بجلی کی پیداوار کیوں نہیں بڑھاتے؟ کے الیکٹرک والے کہتے ہیں کہ 900 میگا واٹ بڑھانےکی درخواست نیپراکو دی ہوئی ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سسٹم میں 900 میگاواٹ شامل کرنے کیلئے نیپرا نے کیا کیا؟
چیف جسٹس پاکستان نے ایم ڈی کے الیکٹرک سے مکالمہ کیا کہ کے الیکٹرک کے ایم ڈی ادھر ہی ہیں، آپ کا کیا ارادہ ہے؟ کراچی کو کب بجلی دیں گے؟ سی ای او کے الیکٹرک کدھر ہیں، سی ای او صاحب آپ ابھی تک عہدے پر ہی ہیں؟
جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کے الیکٹرک کا اصل مالک کون ہے؟ اس پر کے الیکٹرک کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے9 ڈائریکٹرز ہیں، کے الیکٹرک سعودی اور کویتی بزنس گروپس کا اشتراک ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلآخر ان گروپس کے پیچھے اور مزید گروپس ہوں گے، آخر میں یہ کمپنی ممبئی میں لینڈ کرے گی، اس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ یہ کمپنی ممبئی کی ہے۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیےکہ ہم نے ایسا ہی سنا ہے، آخر میں کوئی ممبئی والا نکلے گا، سنا ہے شرما نامی کوئی بندہ ہے، اگر آپ ملک کے وفادار ہوتے تو کراچی کا یہ حال نا ہوتا، آدھا شہر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کو جاگتا ہے، شہر میں ہیٹ ویو آرہی ہے اور لوگوں کو بجلی نہیں مل رہی، جب کمپنی ممبئی سے کنٹرول ہوگی پھر ایسا تو ہوگا، خبروں کے مطابق کراچی اور بلوچستان میں بجلی ممبئی سے کنٹرول ہوتی ہے، آدھا کراچی رات کو اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے اور روز مجھے کالز میسجز آتے ہیں کہ کراچی میں دن میں 3 بار بجلی جارہی ہے، کراچی میں بجلی کی تقسیم ممبئی سے کنٹرول ہو رہی ہے، شہر میں کسے کتنی بجلی ملے گی اس کا کنٹرول ممبئی سے چلایا جارہا ہے، یوں لگتا ہے آخر میں اس کمپنی کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے، یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوگی، ان کی پشت پر کوئی اور ہے۔
کے الیکٹرک کے وکیل نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر کہا کہ ممبئی کے شیئر ہولڈر والی خبریں غلط ہیں، اس پر معزز چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو اخبار میں خبریں پڑھی ہیں، ہمیں سورس کا نہیں پتا،کارپوریٹ معاملات الجھے ہوتے ہیں، سامنے کوئی اور پیچھے کوئی اور، سارے عمل میں آخر میں فائدہ کوئی اور لے جاتا ہے، کے الیکٹرک والے ڈیفالٹر ہیں، ان کو جیل بھیجنا چاہیے، بجلی کی فراہمی بنیادی حق ہے، کے الیکٹرک والوں پربھاری جرمانہ کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہیٹ ویو چل رہی مگر بجلی نہیں ہوتی، کے الیکٹرک معاملے پر لوگوں کے ذاتی مفادات سامنے آگئے ہیں، نیپرا میں میٹنگ شور شرابے سے ختم کرادی جاتی ہے۔
چیئرمین نیپرا نے عدالت کوبتایا کہ نیپرا کراچی میں مقابلے کی فضا قائم کرنا چاہتا ہے، ہم نقصان والے علاقے دیں گے تو کوئی سرمایہ کار نہیں آئے گا، ہمارے پاس کے الیکٹرک کے لیے منتظم رکھنے کا اختیار ہے، نجکاری کے وقت بجلی پیداوار، تقسیم اور دیگرمراحل کے الیکٹرک کو دیے گئے جو ایک بڑی غلطی تھی۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کے الیکٹرک میں چندافرادکی کھچڑی بنی ہوئی ہے، انہیں سامنے لانا ہوگا، ایسی خراب صورتحال میں شنگھائی الیکٹرک والے کیوں آئیں گے، شنگھائی الیکٹرک والے آتے ہیں تو ان کی اپنی شرائط ہوں گی، پھر ریاست کے اندر ایک ریاست بن جائے گی۔
معزز چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی شہر کا ہر ادارہ ختم ہوچکا، عوام کو کوئی سروس نہیں مل رہی، شہر میں پولیس والا جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں کا بادشاہ ہوتا ہے، کراچی کے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے ہم پتھر کے دور میں جی رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے ان چیمبر بریفنگ کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کرلی جب کہ کے الیکٹرک کی جانب سے بریفنگ دینے کی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے وفاقی حکومت اور وزارت توانائی کوکراچی کو بجلی کی فراہمی پربریفنگ کیلئے طلب کیا۔