موجودہ سلیکٹڈ حکمران بلوچستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق دینے سے کترا رہی ہے، عوامی نیشنل پارٹی
قلعہ سیف اللہ:عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ ملک میں موجودہ سلیکٹڈ حکمران بلوچستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق دینے سے کترا رہی ہے، اگر تحریک انصاف کی حکومت بلوچستان کو اس کے جائز حقوق دینے میں سنجیدہ ہوتی تو سب سے پہلے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تا قلعہ سیف اللہ سی پیک روٹ کا مقدمہ لڑتی اور بلوچستان کے عوام کو اس کے جائز حقوق دلواتی۔ قلعہ سیف اللہ میں اے این پی بلوچستان کے زیر اہتمام عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے سات سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے، ان کی پچھلی دور حکومت میں جب سی پیک منصوبے پر عمل درآمد شروع ہونے والا تھا تو پرویز خٹک نے صوبے کے وزیر اعلی کی حیثیت سے پشاور تا ڈیرہ اسماعیل خان تک سی پیک روٹ کا مطالبہ تک نہیں کیا تو بلوچستان کو حقوق دینا اور اس کے لئے لڑنا تو درکنار ہے۔ جلسہ عام سے اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی، صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی، صوبائی وزیر زراعت انجنیئر زمرک اچکزئی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ ہم تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، کسی کو افغانستان کے نام سے ڈرنے کی قطعا ضرورت نہیں، پاکستان اور افغانستان میں امن ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے، پاکستان میں امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے، اگر افغانستان میں امن نہیں ہوتا تو پاکستان میں بھی امن نہیں آسکتا۔ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشتونوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کیلئے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ نکل رہے ہیں، پی ڈی ایم کے راستے تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر نیا متفقہ میثاق تشکیل دے گی جس پر تمام اپوزیشن پارٹیوں کے دستخط ہوں گے۔ نئے میثاق میں عوام کے حقوق، جمہوریت کی اصل معنوں میں بحالی اور عوام کے حق حکمرانی کو یقینی بنایا جائے گا، لیکن کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ اے این پی پی ڈی ایم کی آڑ میں ویسے ہی کسی کو اپنا کندھا پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی نے خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار آنے کے بعد کئی چیلنجز کے باوجود نہ صرف پختونوں کو اپنی شناخت دی بلکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی شکل میں تمام چھوٹی قومیتوں کو انکے حقوق دلائے۔ وزیراعلی کے حیثیت سے پختونخوا اور بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑی، انہوں نے کہا کہ اے این پی سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت سلیکٹڈ ہے اور پہلا مطالبہ اس حکومت کے گھر جانے کا ہے، دوسرا مطالبہ ملک کے اندر بغیر کسی مداخلت کے صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے کہا کہ جب ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ بات کسی کو کیوں بری لگتی ہے۔ اپنے حقوق سے نہ ایک انچ پیچھے ہٹیں گے، نہ جھکیں گے، نہ بکیں گے اور نہ سمجھوتہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے حالات آج ایک بار پھر باچا خان کے فلسفے کے متقاضی ہیں کہ اسی فلسفہ عدم تشدد پر عمل کیا جائے کیونکہ امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غداری کے فتوے بانٹنے والوں کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، 2008 سے 2013 تک اے این پی کی قربانیوں پر نظر ڈالی جائے تو لگ پتہ جائیگا کہ غدار کون اور وفادار کون ہیں، ہمیں کسی سے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹس کی ضرورت نہیں۔ بلوچ اور پشتون بھائی بھائی ہیں ہم اس دوستی سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ قلعہ سیف اللہ جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے کچھ نعروں کو مٹانے کی صورت میں جلسہ کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ انہی نعروں میں ایک نعرہ فوج کی جانب سے سیاست میں مداخلت سے گریز بھی تھا، اگر یہ غیر آئینی مطالبہ ہے تو ہم دستبردار ہوجائے ہیں لیکن اگر یہ نعرہ آئینی ہے تو مٹانا چہ معنی دارد؟ بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کئے جائیں۔ آئی ایس پی آر میڈیا پر تسلط قائم کرنے کی غیر آئینی کوشش سے اجتناب کرے، ہمیں ایف آئی آر سے نہ ڈرایا جائے۔ اس موقع پر اے این پی کے دیگر مرکزی اور صوبائی قائدین بھی موجود تھے۔