اے پی سی کے انتظار میں اگست کی ملاقات ستمبر میں پبلک کی گئی، حافظ حسین احمد
کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان و سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ اگست میں ہونے والی ملاقاتوں کی خبر 23ستمبر کو شیخ رشید کے ذریعے اتنی جلدی دینے کی کیا ضرورت درپیش تھی لگتا ہے کہ شاید ”انہیں“ اپوزیشن کی اے پی سی کا انتظار تھا، اگر یہ ملاقاتیں ان کیمرہ نہیں تھیں تو فوری طور پر میڈیا کو اطلاع کیوں نہیں دی گئی اور اگر خفیہ تھیں تو تقریباً ایک ماہ بعد شیخ رشید کے توسط سے اسے میڈیا کے ذریعے کیوں آشکارا کیا گیا۔جمعرات کے روزاپنی رہائشگاہ جامع مطلع العلوم میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران شیخ رشید کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ اس ادارے کے”ناجائز ترجمان“ بننے والے آخر کس حیثیت اور کس کے اشارے پر آئی ایس پی آر کے ترجمان بنے پھرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک نجی چینل پر سینئر صحافی شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں خواجہ آصف نے خفیہ ملاقات کی اعلانیہ روداد جس انداز میں سنائی وہ نہ صرف حیران کن بلکہ ہمارے خدشات کے عکاس ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کے دن پولنگ کے اختتام پر رات تک میرے نتائج روک دئیے گئے تو میں نے رات گئے آرمی چیف کو ٹیلی فون پر شکایت کی جس کا تذکرہ انہوں نے ملاقات میں سب کے سامنے کیا اور کہا کہ آپ کا کام تو ہوگیا تھا اور حقیقناً صبح میں 17سو ووٹ سے جیت چکا تھا آخرہم اس ٹیلی فونک رابطے اور مکالمے کو کس کھاتے میں ڈالیں جو میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہے، انہوں نے کہا کہ اسی ادارے کی جانب سے اس قسم کی وضاحت جہاں قابل تحسین بھی ہے وہاں وہ قابل غور ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں درپیش آئی جس چیز کی آئین میں پہلے ہی کوئی گنجائش نہ ہو اس کی بار بار وضاحت کس صورتحال کی جانب سے اشارہ کرتی ہے کیا ان سے ہمارے ان خدشات کی تصدیق نہیں ہوتی جس کا رونا دو سال سے ہم رو رہے ہیں، جے یو آئی ترجمان نے کہا کہ اللہ خیر کرے جنرل ضیاء الحق نے بھی مرحوم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء لگانے سے چند دن پہلے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک کر اپنی وفاداری اور آئین پر کاربند رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حساس دفاعی اور دیگر معاملات پر فوج کے اداروں کے ساتھ ملاقات اورمشاورت ہونی چاہئے جہاں ضرورت ہو اسے خفیہ رکھنے کے لیے ان کیمرہ رکھا جائے اور جہاں ضرورت ہو اسے فوراً پبلک کیا جائے لیکن یہ ایک ماہ بعد اس انداز میں بظاہر ان کیمرہ ملاقاتوں کو پبلک کیا جارہا ہے اس سے یقیناً شکوک و شبہات کا پیدا ہونا فطری امر ہے، انہوں نے کہا کہ وضاحت کی جائے کہ شیخ رشید کو ایک ادارے کا ترجمان بنایا جانا کس زمرے میں آتا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حساس معاملات اور ملاقاتوں کے حوالے سے شیخ رشید کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے ہو بلکہ اس قسم کی خبروں کی اوپننگ کے لیے ان کو خصوصیت سے استعمال کیا جارہا ہے۔